مسجد مىں سائرن لگانے كا حكم

مسجد مىں سائرن لگانےكا حكم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد مىں سائرن كى رىكارڈنگ چلانا جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سائرن کی جو آواز ہے یہ یہودیوں کی عبادت گاہوں میں بجاتے ہیں،آج کل مساجد میں سائرن کی ریکارڈنگ چلانا سحری میں معمول بن گیا ہے۔
شریعت کی روشنی میں مذکورہ مسئلہ کے متعلق رہنمائی فرمائیں۔

جواب

فقہائے کرام رحمہما اللہ کے کلام سے سحری وافطاری کے اوقات بتانے کے لئے سائرن کے ریکارڈنگ چلانے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، بشر طیکہ اس میں ساز نہ ہو لیکن چوں كہ مسجد ایک معظم جگہ ہے، اس لئے سائرن مسجد میں نہ چلایا جائے، بلکہ مسجد کی حدود سے باہر چلایا جائے، تاکہ مسجد کا تقدس پامال نہ ہواور ضرورت بھی پوری ہوجائے۔
لما في رد المحتار:
”وينبغي أن يخون بوق الحمام يجوز كضرب التوبة وعن الحسن: لا بأس بالدف في العرس يشتهر. وفي السراجية: هذا إذا لم يكن له جلاجل ولم يضرب على هيئة التطرب.١ه. أقول: وينبغي أن يكون طبل المسحر في رمضان لا يقاظ النائمين للسحور كبوق الحمام“. (كتاب الحظر والإباحة قبيل فصل في اللبس، 579/9:رشيدية)
وفي سكب الأنهر:
”(وكل لهو) لقوله عليه الصلاة والسلام: ((كل لعب ابن آدم حرام إلا ثلاثة: ملاعبة أهله وتأديبه لفرسه و مناضلته لقوسه)) والإطلاق شامل لنفس الفعل واستماعه بالفعل كرقص المتصوفة والسخرية والتصفيق وضرب الأوتار والصخ والبوق ونحوها فكلها مكروهة لأنهازي الكفار و كذلك ضرب التوبة للتفاخر فلو ضرب للتنبيه فلا بأس به كما إذا ضرب في ثلاثة أوقات لتذكير ثلاث نفخات من الصور‘‘.(كتاب الكراهية، الباب في المتفرقات: 222/4:غفارية)
وفي الهندية:
السادس: أن لا يرفع فيه الصوت غير ذكر الله“.(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد: 372/5:دار الفكر).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/260