ختم قرآن وختم بخاری کے پروگرام میں بچوں سے چندہ مانگنا

ختم قرآن وختم بخاری کے پروگرام میں بچوں سے چندہ مانگنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل ختم قرآن یا ختم بخاری شریف کے موقع پر مختلف پروگرام ہوتے ہیں، مختلف علاقوں سے بیانات اور نعتوں کے لیے حضرات کو بلاتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے تیار کرتے ہیں ،اور اس پروگرام میں مختلف قسم کی ویڈیوز بناتے ہیں ، بچوں کے گلے میں ہار ڈالتے ہیں، پھول وغیرہ بچوں کے اوپر پھینکتے ہیں، جبکہ بعض بچے غریب اور لاوارث، یتیم ہوتے ہیں ان کا کوئی رشتہ دار وغیرہ نہیں آتا اس کے دل میں مختلف قسم کی تمنائیں اٹھتی ہیں ،اس حوالے سے چند باتیں زیرِ طلب ہیں:

۱…بچوں سے پیسے جمع کرنا کیسا ہے جبکہ بعض بادلِ ناخواستہ دیتے ہیں اور بعض قرض لے کر مجبوراً دیتے ہیں؟
۲…ان پیسوں سے پکا ہوا کھانا کھانا کیسا ہے؟
۳…یہ پیسے مقررین ونعت خواں حضرات کو دینا کیسا ہے؟یا مدرسہ کے فنڈ میں سے ان حضرات کو دینا کیسا ہے؟
۴…اس موقع پر مسجد یا مدرسہ میں تصویر کشی اور ویڈیو کا کیا حکم ہے؟
۵…ان پیسوں پر بعض طلباء کو انعامات دینا یا اساتذہ کو نقد رقوم دینا کیسا ہے؟
۶…اپنا یہ پروگرام میڈیا پر دکھانا کیسا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں ختم بخاری اور ختم قرآن کے پروگراموں کے لیے مذکورہ طریقے پر بچوں سے پیسے لے کر کھانا پکاکر کھانا اور ان پیسوں سے نعت خواں، مقررین حضرات ،طلباء کو انعامات اور اساتذہ کو نقد رقم دینا جائز نہیں ،اسی طرح مدرسے کے فنڈ کو بھی ان پروگراموں کے لیے اس وقت استعمال کرسکتے ہیں، جب یہ پروگرام کسی جاندار کی تصویر کشی، ویڈیوز، بچوں کو ہار پہنانے اور دیگر ناجائز کاموں اور خرافات سے خالی ہو، نیز میڈیا پر بھی صرف پروگرام کی آڈیو دے سکتے ہیں، ویڈیو کی اجازت نہیں۔
لما في الصحیح لمسلم:
عن عبداللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :’’إن أشد الناس عذابا یوم القیامۃ المصورون‘‘. (ص:945، رقم الحدیث:5538، دارالسلام)
وفي السنن الکبریٰ:
’’أخبرنا أبوبکر بن الحارث الفقیہ، أنبأ أبو محمد بن حیان، قال حدثنا حسن بن ھارون بن سلیمان، قال حدثنا عبدالأعلی بن حماد، قال حدثنا حماد بن سلمۃ، عن علي بن زید، عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ ،أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ من مسلم إلا بطیب نفس منہ‘‘. (کتاب الغصب، باب من غصب لوحا فأدخلہ في سفینہ أو بنی علیہ جدارا: 166/6، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
وفي فتاویٰ قاضي خان:
’’مسجد لہ مستغلات وأوقاف، أراد المتولي أن یشتري من غلۃ الوقف للمسجد، دھنا، أو حصیرا، أو حشیشا، أو آجرا، أو جما لفرش المسجد أو حصی، قالوا:إن وسع الواقف ذلک للقیم وقال: تفعل ماتری من مصلحۃ المسجد کان لہ أن یشتري للمسجد ما شاء‘‘. (کتاب الوقف، باب الرجل یجعل دارہ مسجدا، أو خانا أو سقامۃ أو مقبرۃ: 207/3، دارالفکر).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:253-255/ 177