وصیت کی شرعی حد

وصیت کی شرعی حد

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنے ترکے کا ایک تہائی حصہ میں سے%20 فیصد بطور فدیہ اور%10 فیصدر بطور صدقہ جاریہ وصیت کرنا چاہتا ہوں، اور باقی%3فیصد دیگر معاملات کے لیے، کیوں کہ مجھے یاد نہیں کہ میرے ذمے کتنی نمازیں ہیں، جہاں تک مجھے یاد ہے کہ روزے اور زکوٰۃ اور صبح کے فرائض ادا ہوچکے ہیں، لیکن اگر وہ بھی ہو پھر بھی میں اپنے%33 فیصد کا زیادہ سے زیادہ حصہ فدیہ اور صدقہ جاریہ میں دینا چاہتا ہوں، کیا میرا ایسا کرنا درست ہوگا؟
براہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں رہبری فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اپنی جائیداد کے ایک تہائی حصے تک وصیت کرنا جائز ہے، لہذا آپ کا فدیہ وغیرہ کے لیے%20 فیصد وصیت کرنا جائز ہے اور مزید%10 فیصد بطور صدقہ جاریہ اور%3فیصد کا دیگر معاملات کے لیے وصیت جائز ہے بشرطیکہ کسی جائز اور متعین کام کے لیے ہو۔
لمافي التنویر مع الدر:
(ھي تملیک مضاف إلی ما بعد ا لموت) عینا کان أو دینا، قلت: یعني بطریق التبرع لیخرج نحو الإقرار بالدین فإنہ نافذ من کل المال کما سیجيئ، ولا ینافیہ وجوبھا لحقہ تعالی، فتأملہ .(وھي) علی ما في المجتبی أربعۃ أقسام: (واجبۃ بالزکاۃ) والکفارۃ (و) فدیۃ (والصیام والصلاۃ التي فرط فیھا) ومباحۃ لغني ومکروھۃ لأھل فسوق (وإلا فمستحبۃ) ولا تجب للوالدین والأقربین......؛ لأن آیۃ البقرۃ منسوخۃ بآیۃ النساء‘‘.(کتاب الوصایا: ١٠/ ٣٥٣:رشیدیۃ)
وفیہ أیضا:
’’(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم یجز الوارث ذلک لا الزیادۃ علیہ إلا أن تجیز ورثتہ بعد موتہ) ولا تعتبر إجازتھم حال حیاتہ أصلا بل بعد وفاتہ‘‘.(کتاب الوصایا:١٠/ ٣٥٨:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/244