ورثاء کے درمیان مکان کی تقسیم کیسے کی جائے؟

ورثاء کے درمیان مکان کی تقسیم کیسے کی جائے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد صاحب نے 1956 میں ایک پلاٹ 350روپے میں خریدا تھا، جس کی اراضی 1870فٹ ہے، اس کے علاوہ والد صاحب کی وفات کے وقت کچھ بھی نہیں تھا، یہی پلاٹ تھا  اور یہی رہائشی گھر، اس پلاٹ پر والد صاحب کی وفات کے بعد 1994 میں ایک مرتبہ کچھ حصہ دوبارہ تعمیر کیا گیا، جس میں مکمل خرچہ دو بڑے بھائیوں نے کیا، اس کے بعد دوسری مرتبہ 2014میں کچھ حصہ دوبارہ تعمیر کیا گیا، جس میں بھی مکمل خرچہ بڑے دو بھائیوں نے ہی کیا۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر اس گھر کے حصے کر کے تمام بہن بھائیوں کو ان کے حصے دیے جائیں، تو پلاٹ کی موجودہ قیمت لگائی جائے گی جو 3500روپے فٹ ہے  یا پوری تعمیر کی قیمت لگائی جائےگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں پلاٹ کی موجودہ قیمت (3500 روپے فی فٹ) ورثاء کے درمیان بقدرِ حصصِ شرعی تقسیم کی جائے۔
لما في الفتاوى تنقيح الحامدية:
(سئل) فيما اذا بنى زيد قصرًا بماله لنفسه في دارٍ مشتركة بينه وبين إخوته بدون إذنهم، فهل يكون البناء ملكا له؟ (الجواب): نعم“. (كتاب الشركة: 100/1:رشيدية)
وفي الفتاوي الهندية:
”لو تصرف أحد الورثة في التركة المشتركة وربح، فالربح للمتصرف وحده، كذا في الفتاوى الغياثية“. (كتاب الشركة، الباب السادس، 343/2:دار الفكر).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/350