مىراث كے وقت بہنوں کا اپنا حصہ بھائیوں کو بخشنا

مىراث كے وقت بہنوں کا اپنا حصہ بھائیوں کو بخشنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی گاؤں میں یہ رواج ہوکہ والد کے فوت ہونے کے بعد اور میراث کی تقسیم کے وقت میں بہن بھائیوں کو اپنا حصہ بخش دیا کہا یہ حصہ ساقط ہوتا ہے یا نہیں؟

جواب

عام طور پر عورتیں رسم ورواج اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنے اپنے حصے معاف کرتی ہیں، اس لیے زبانی معاف کرنے کا اعتبار نہیں۔البتہ اگر پہلے میراث کو تقسیم کر کے بہنوں کو اپنے اپنے حصے دیئے جائیں، پھر اگر بہنیں اپنی رضا مندی سے بھائیوں کو ہبہ کر کے قبضہ دے دیں، تو ہبہ شرعا معتبر ہوگا۔
لما في السنن الكبرى للبيهقي:
”عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم- قال: ((لا يحل مال رجل مسلم لأخيه إلا ما أعطاه بطيب نفسه)). لفظ حديث التيمي وفي رواية الرقاشي: ((لا يحل مال امرئ يعنى مسلما إلا بطيب من نفسه))‘‘.(كتاب قتال اهل البغي، باب اهل البغي اذا فاووا، رقم الحديث: 1475: دار الكتب العلمية بيروت)
وفي تبیين الحقائق:
قال رحمه الله: (فإن قسمه وسلمه صح) أي: ولو وهب مشاعا أثم قسمه وسلمه جاز؛ لأن تمام الهبة بالقبض وعنده لا شيوع فيه أولو سلمه شائعا لا يملكه حتى لا ينفذ تصرفه فيه ويكون مضمونا عليه وينفذ فيه تصرف الواهب ذكره الطحاوي وقاضي خان. وروي عن ابن رستم مثله وذكر عصام أنها تفيد الملك وبه أخذ بعض المشايخ‘‘. (كتاب الهبة، 54/4: عباس احمد الباز).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/323