والد کا اپنی زندگی میں تقسیم مال اور تقسیم وراثت کا حکم

والد کا اپنی زندگی میں تقسیم مال اور تقسیم وراثت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ والد کے کاروبار میں اولاد بھی شامل ہے۔ ان میں سے بڑے بھائی کافی سالوں تک والد کے ساتھ کاروبار میں لگے رہے، جب کہ چھوٹے بھائی تعلیم میں لگے رہے، انہوں نے کاروبار میں زیادہ حصہ نہیں لیا یا بالکل نہیں لیا۔ تو کیا میراث کی تقسیم میں بڑا بھائی زیادہ کا مستحق ہوسکتا ہے یا والد کی زندگی میں اس بڑے بیٹے کو زیادہ حصہ دیا جاسکتا ہے؟ یا پھر والد کے وفات کے بعد اس بڑے بیٹے کو کاروبار میں شریک یا اس گزشتہ سارے عرصے کا اجیر مان کر کوئی اضافی حصہ دیا جاسکتا ہے ؟ الغرض مذکورہ بالا صورت میں کسی بھی طریقے سے بڑے بیٹے کو زیادہ حصہ مل سکتا ہے یا نہیں؟
اس حوالے سے دو طرفہ دلائل پائے جاتے ہیں:ایک یہ کہ وہ معاون شمار ہوگا اور میراث میں برابر کا شریک ہوگا، یعنی زیادہ کا مستحق نہیں۔ دوسرا یہ کہ ان کو زیادہ حصہ ملنا چاہیے، کیوں کہ انہوں نے اپنی زندگی کا اہم حصہ اسی کاروبار میں لگایا ہے۔
آپ سے درخواست ہے کہ تفصیلی دلائل کی روشنی میں صحیح موقف بتائیں اور کیا کسی بھی وجہ سے کبھی دوسرے قول پر عمل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر کوئی معاملہ طے ہوا تھا والد اور بیٹے کے درمیان، یا بیٹے نے کاروبار میں اپنی طرف سے مال لگایا تھا، تو اس کی تفصیل پتہ چلنے پر اس کا حکم بتانا ممکن ہوگا، اگر ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہیں تھی اور کاروبار میں ساتھ کام کرنے والا بیٹا والد کی کفالت میں ہے، تو اس صورت میں اگر والد کا انتقال ہوگیا، تو سارا مال میراث کے حکم میں ہوگا اور سب بیٹوں پر مال وراثت برابر تقسیم ہوگا، محض کاروبار میں تعاون کی وجہ سے میراث میں اضافہ نہیں ہوگا اور اگر والد اپنی زندگی میں ہی اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہو، تو زندگی میں تقسیم کرنا ہبہ کے حکم میں ہے اور ہبہ کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ سب اولاد میں برابری کی جائے، بغیر کسی معقول وجہ کے پیشی نہ کی جائے، البتہ کسی معقول وجہ کے، جب کہ دوسروں کو محروم کرنا مقصود نہ ہو کسی کو زیادہ دے سکتے ہیں، لہذا بیٹے کے کاروبار میں تعاون کی بنیاد پر دوسروں سے زیادہ دے سکتے ہیں، بشرطیکہ دیگر بچوں کو محروم کرنا مقصود نہ ہو۔
لما في الدر مع الرد:
’’الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له‘‘.(كتاب الشكرة، فصل في الشركة الفاسدة، مطلب اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية: 497/6، دار المعرفة).
وفي المحيط البرهاني:
’’سئل أيضًا عن رجل له ثلاثه بنين كبار وكان دفع لواحدٍ منهم في صحته مالاً ليتصرف فيه، ففعل وكبر ذلك الابن اختص به هذا الابن ويكون ميراثا عنه بينهم؟ قال: إن أعطاه هبة فالكل له، وإن دفع إليه ييعمل فيه الاب فهو ميراث‘‘.(كتاب الهبة، الفصل الحادي عشر في المتفرقات:200/7، الغفارية)
وفي مبسوط السرخسي:
’’فإن اجتمع البنون فالمال [مال الميراث] بينهم بالسوية لاستوائهم في سبب الاستحقاق‘‘.(كتاب الفرائض، باب الأولاد: 3452/3، بيت الافكار)
وفي الدر مع تكملة الرد:
’’وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار‘‘.(كتاب الهبة، 578/12، دار المعرفة)
وفي الفتاوى السراجية:
’’وينبغي أن يعدل بين أولاده في العطايا ،و العدل عند أبي يوسف رحمه الله أن يعطيهم على السواء.... وإن كان بعض أولاده مشتغلا بالعلم دون الكسب لا بأس بأن يفضله على غيره‘‘.(كتاب الهبة. 400، زمزم).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/95