موسیقی (گانےوغیرہ)سننے سے نکاح کا حکم

موسیقی (گانےوغیرہ)سننے سے نکاح کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے محلہ کی مسجد کے ساتھ ایک گھر میں لڑکے کی شادی کی تقریب تھی، گلی بند  کرکے ڈیگ پر ناچ گانے اور موسیقی کا پروگرام چل رہا تھا، عورتیں ناچتی، کودتی رہیں، مردوں کے لیے ایسا ہی موسیقی کا پروگرام محلہ کے گراؤنڈ میں ساری رات چلتا رہا، پولیس کی آمد تک یہ خرافات ہوتی رہی۔
اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ جو بالغ شادی شدہ مرد اس خرافا ت سے محظوظ ہوتے رہے، کیا ان کے نکاح باقی رہے یا ٹوٹ گئے؟ توبہ کے علاوہ تجدید نکاح ان کے لیے ضروری ہے یا نہیں؟ تجدید نکاح کے بغیر ان کی آئندہ ہونے والی اولاد حلالی ہوگی یا حرامی؟ بینوا توجروا۔

جواب

صورت مسؤلہ میں ان مذکورہ افراد کے نکاح باقی ہیں، البتہ ایسے ناجائز کام میں شریک ہوکر بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان پر توبہ واستغفار لازم ہے۔
لما في الدر:
’’قال ابن مسعود: صوت اللہو والثناء ینبت النفاق في القلب کما ینبت الماء النبات.
قلت: وفي البزازیۃ: استماع صوت الملاہي کضرب قصب ونحوہ حرام؛ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: استماع الملاہي معصیۃ، والجلوس علیہا فسق، والتلذذ بہا کفر، أي بالنعمۃ، فصرف الجوارح إلی غیر ما خلق لأجلہ کفر بالنعمۃ لا شکر، فالواجب کل الواجب أن یجتنب کي لا یسمع؛ لما روي أنہ علیہ الصلاۃ والسلام أدخل أصبعہ في أذنہ عند سماعہ‘‘.(کتاب الحظر والإباحۃ، ٩/ ٥٧٦:رشیدیۃ)
وفي التاتارخانیۃ:
’’وإن کان سماع غناء فہو حرام؛ لأن التغني واستماء التغني حرام أجمع العلماء علیہ وبالغوا فیہ‘‘.(کتاب الکراہیۃ، ١٠/ ١٠٠: فاروقیۃ)
وفي شرح النووي علی صحیح مسلم:
’’واتفقوا علی أن التوبۃ من جمیع المعاصي واجبۃ، وأنہا واجبۃ علی الفور، لا یجوز تاخیرہا، سواء کانت المعصیۃ صغیرۃ أو کبیرۃ‘‘.(کتاب التوبۃ، ٢/ ٣٥٤: قدیمي).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:07/ 173

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی