منتظم کامدرسہ میں اپنی گاڑی کھڑی کرنے، ذاتی مہمان ٹھہرانے اور اکرام کرنے کا حکم

منتظم کامدرسہ میں اپنی گاڑی کھڑی کرنے، ذاتی مہمان ٹھہرانے اور اکرام کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی مدرسہ کا منتظم ہے لیکن مدرسہ سے اس کا کوئی مشاہرہ مقرر نہیں ہے کیا وہ
١) اپنا کوئی مہمان مدرسہ میں ٹھہرا سکتا ہے؟
٢) کیا وہ اپنی سواری مدرسہ کے اوقات کے علاوہ کھڑی کرسکتا ہے؟ اور اپنی سواری مستقل مدرسہ میں کھڑی کرسکتا ہے؟
٣) کیا وہ مدرسہ کے اوقات یا اوقات کے بعد ذاتی مہمان، ذاتی کام، ذاتی معاملات کو وہاں بیٹھ کر نمٹا سکتاہے؟
٤) ان کا اپنا دواخانہ ہے تو اس کی دوا مدرسہ کی جگہ پر تیار کرواسکتا ہے؟

جواب

١،٢) کسی ادارے میں چندہ دینے والے اگر کسی خاص مصرف کی تعیین کردیں، تو ایسی صورت میں اس خاص مصرف کے علاوہ مدرسہ کے ذمہ دار کے لیے کسی اور جگہ اس رقم کو صرف کرنا جائز نہیں، اور اگر وہ کسی خاص مصرف کی تعیین نہ کریں، بلکہ مطلق مصالح مدرسہ کے لیے چندہ دیں تو پھر مدرسہ کے عمومی مصالح کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں منتظم مدرسہ، مدرسے میں اپنا مہمان ٹھہراسکتا ہے اور اپنی سواری مدرسہ میں کھڑی کرسکتا ہے، بشرطیکہ مدرسہ کے دیگر مصالح میں حرج لازم نہ آرہا ہو۔
٣) مدرسہ کا منتظم مدرسہ کے اوقات میں ذاتی کام کرسکتا ہے، بشرطیکہ مدرسے کے امور میں خلل لازم نہ آتا ہو۔
٤) مدرسہ کا منتظم اگر فارغ اوقات میں اپنے ذاتی دواخانے کے لیے دوا تیار کرے، تو اس کی صرف اس صورت میں گنجائش ہے کہ دوا کی تیاری میں مدرسہ کی بجلی، گیس اور دیگر اشیاء کا استعمال نہ کیا جائے اور مدرسہ کی ذمہ داریوں میں کوئی خلل بھی نہ آئے، اور مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ کا بھی اس میں حرج نہ ہو۔
وفي الرد:
’’علی أنہم صرحوا بأن مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ، وصرح الأصولیون بأن العرف یصلح مخصصا‘‘.(کتاب الوقف، مطلب في المصادقۃ علی النظر، ٦/ ٦٣: رشیدیۃ)
وفيہ ایضاً:
’’مطلب شرائط الواقف معتبرۃ إذا لم تخالف الشرع‘‘.
’’فإن شرائط الواقف معتبرۃ إذا لم تخالف الشرع وہو ما لک، فلہ أن یجعل مالہ حیث شاء ما لم یکن معصیۃ، ولہ أن یخص صنفا من الفقراء ولو کان الوضع في کلہم قربۃ‘‘.(کتاب الوقف، ٦/ ٥٦٢: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:175/159