مسجد کے نیچے سرکاری نالہ ہو اس کے اوپر صف بنانا کیسا ہے؟

مسجد کے نیچے سرکاری نالہ ہو اس کے اوپر صف بنانا کیسا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسجد جو کہ کئی دہائیوں (تقریبا ساٹھ سال) سے تعمیر شدہ ہے، مسجد کی ابتدائی تعمیر ایک بڑے سرکاری نالے کے مغربی طرف کی گئی ہے، نالے میں علاقے کے گھروں کا پانی نیز زرعی زمین کو سیراب کرنے کا پانی بھی بہتا ہے، آبادی بڑھنے کی وجہ سے مسجد میں مشرق کی طرف توسیع ہوتی رہی، اب صورتحال یہ ہے کہ یہی سرکاری نالا جو کہ شمالا جنوبا بہتا ہے ،مسجد کے بڑے ہال کے عین درمیان میں آگیا ہے، مسجد کے بڑے ہال کی4صفیں نالے کے مغربی طرف ہیں، اور دو صفیں مشرقی طرف ہیں، جب کہ ایک صف عین نالے کے اوپر ہے، مشرقی سمت برآمدہ اور صحن ہے، نیز وضو خانے بھی مشرق کی طرف ہے۔
اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مسجد ہذا میں اعتکاف کی کیا صورت ہوگی؟ نیز سرکاری زمین وقف کرنے یا خریدنے کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں جو صف عین نالے کے اوپر ہے اس میں اعتکاف درست نہیں ہے، اس لئے کہ وہ صف مسجد شرعی نہیں ہے، باقی نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں، جماعت کی صورت میں اگر اتصال ہو تو جماعت بھی درست ہوجائے گی، نیز حکومت کی زمین کو اجازت کے بغیر وقف کرنے اور خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔
لما في التنوير مع الدر:
’’قال في البحر: وحاصله أن شرط كونه مسجد أن يكون سفله وعلوه مسجد الينقطع حق العبد عنه، لقوله تعالى:«وأن المساجد لله» بخلاف ما إذا كان السرداب والعلو موقوف المصالح المسجد‘‘.(كتاب الوقف، مطلب في احكام المسجد: 6/549: رشيدية)
وفي البحر:
’’سن لبث في مسجد بصوم ونية.... فالركن هو اللبث[والكون في المسجد]“.(باب الاعتكاف: 22/2:رشيدية)
وفي شرح المجلدة لسليم رستم باز:
’’لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك غيره بلا إذنه‘‘.(شرح المجلة:61/1، رقم المادة: 96:حنفية كوئته)
وفي البحر:
’’الخامس من شرائطه:الملك وقت الوقف حتى لو غصب أرضا، فوقفها، ثم اشتراها من مالكها ودفع الثمن إليه، أو صالح على مال دفعه إليه لا تكون وقفا: لأنه إنما ملكها بعد أن وقفها‘‘.(كتاب الوقف: 314/5:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/54