مسجد کے فنڈ کو دیگر مصارف میں خرچ کرنے کا حکم

مسجد کے فنڈ کو دیگر مصارف میں خرچ کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی جگہ ایک پلاٹ فروخت ہورہا تھا، میں نے قیمت معلوم کی تو اندازے سے زیادہ نکلی، میں اس وقت ایک مسجد میں امام تھا اور مجھے اختیار تھا کہ مسجد کی رقم جہاں چاہوں استعمال کروں، میرے پاس مسجد کے فنڈ کی کچھ رقم تھی جو مقتدیوں نے دی تھی، میں نے کچھ پیسے اپنی طرف سے ملائے اور کچھ مسجد فنڈ سے لے کر پلاٹ خرید لیا، اس وقت نیت یہ تھی کہ کچھ عرصے بعد پلاٹ نفع پر بیچ کر اپنی اپنی رقم لے لیں گے اور نفع سرمایے کے تناسب سے تقسیم کرلیں گے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ وہ پلاٹ نہیں بک رہا اور آئندہ پتہ نہیں کب بکے گا (کیوں کہ پلاٹ جس جگہ ہے، اس میں لوگوں کی اتنی زیادہ دلچسپی نہیں ہے) جب کہ مسجد کو فی الحال پیسوں کی ضرورت ہے، اب میں چاہتا ہوں کہ مسجد کے جتنے پیسے پلاٹ کی خریداری میں لگائے تھے وہ مسجد کو واپس کردوں، یوں پلاٹ مکمل طور پر میرا ہوجائے گا، کیا ایسا کرنا شرعا درست ہے؟

جواب

امام مسجد مقتدیوں کی رقم کا امین ہوتا ہے، مسجد کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرنی چاہیے اور دیگر مصارف یعنی کاروبار وغیرہ میں لگانا جائز نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں امام صاحب مسجد کی رقم کو واپس کردیں اور پلاٹ اپنے پورے پیسوں کا خرید کر اپنے نام کرلیں۔
لما في البحر الرائق:
’’وفي القنیۃ: ولا یجوز للقیم شراء شيء من مال المسجد لنفسہ ولا البیع لہ، وإن کان فیہ منفعۃ ظاھرۃ للمسجد‘‘.(کتاب الوقف، ٥/ ٤٠١: رشیدیۃ)
وفي الہندیۃ:
’’سئل القاضي الإمام شمس الإسلام محمود الأوزجندي رحمہ اللہ تعالی عن أہل المسجد، تصرفوا في أوقاف المسجد یعني آجروا المستغل ولہ متول، قال: لا یصح تصرفہم‘‘.(کتاب الوقف: الباب الحادي عشر، ٢/ ٤٧٨: رشیدیۃ).فقط.واللہ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر : 175/350)