مسجد کے اوپر یا نیچے بنات کا مدرسہ بنانا

مسجد کے اوپر یا نیچے بنات کا مدرسہ بنانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص ایک پلاٹ خرید کر مسجد اور مدرسہ کے لیے وقف کرنا چاہ رہا ہے، اورمسجد کے اوپر یا نیچے بنات کا مدرسہ بنائے گا۔ پوچھنا یہ ہے کہ مسجد کے اوپر یا نیچے بنات کا مدرسہ بنانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر ابتدا ہی سے مسجد کے اوپر یا نیچے مدرسہ بنانے کا ارادہ ہو تو جائز ہے، البتہ درج ذیل مفاسد کی بناء پر مسجد کے اوپر یا نیچے بنات کا مدرسہ بنانا مناسب نہیں:
٭ مسجد میں مردوں اور عورتوں کی آمد ورفت کی وجہ سے فتنہ کا اندیشہ ہے۔
٭ خصوصاً بے پردگی کی وجہ سے اور بھی زیادہ مفاسد پیدا ہوسکتے ہیں۔
وفي البحر:
’’لأن المسجد ما بني إلا لھا من صلاۃ واعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم وتعلمہ وقراءۃ قرآن‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا: ٢/ ٦٠: رشیدیۃ)
وفي الہندیۃ:
’’ولو جلس المعلم في المسجد والوراق یکتب فإن کان المعلم یعلم للحسبۃ والوراق یکتب لنفسہ فلا بأس بہ لأنہ قربۃ وإن کان بالأجرۃ یکرہ إلا أن یقع لھما الضرورۃ کذا في محیط السرخسي‘‘.(کتاب الکراھیۃ، الباب الخامس: ٥/ ٣٧١: دار الفکر بیروت)
وفیہ أیضا:
’’ومنھا أنہ یحرم علیھما وعلی الجنب الدخول في المسجد سواء کان للجلوس أو للعبورھکذا في منیۃ المصلي‘‘.(کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع: ١/ ٣: رشیدیۃ).فقط.واللہ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:174/211