مسجد کے اندر ووٹنگ کرانے کا حکم

مسجد کے اندر ووٹنگ کرانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں سیاسی مذہبی جماعتوں کے عہدیداران کے انتخاب کے لیے مسجد کے اندر ووٹ کرانا جائز ہے یا نہیں؟ جس کی وجہ سے مسجد میں شور وشغب اور خوب ہلڑ بازی ہوتی ہے، وہاں کے بااثر لوگوں اور امام مسجد اور انتظامیہ کی اس صورت میں کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں تاکہ اس کا سد باب کیا جاسکے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ ووٹ کرانے کی وجہ سے مسجد میں شور وشغب اور خوب ہلڑ بازی ہوتی ہے، اس کے علاوہ گپ شپ، غیبت، آوازوں کا اونچا ہونا اور فضول گوئی کا بھی غالب امکان ہے، یہ تمام باتیں مسجد کے آداب واحترام کے منافی ہیں۔
لہذا ایسی صورتِ حال میں مسجد میں ووٹنگ کرانے سے اجتناب کیا جائے، اور وہاں کے بااثر لوگوں، امام مسجد اور انتظامیہ کو چاہیے کہ بغیر کسی فساد کے حکمت عملی کے ساتھ اس کا سد باب کریں، ووٹنگ کے لیے مسجد سے باہر کسی اور جگہ کا انتظام کیا جائے۔
لما في سنن ابن ماجہ:
’’حدثنا أحمد بن یوسف السلمي، حدثنا مسلم بن إبراھیم، حدثنا الحارث بن نبھان، حدثنا عتبۃ بن یقظان، عن أبي سعید، عن مکحول، عن واثلۃ بن الأسقع، أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال:«جنبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم وشرارکم وبیعکم وخصوماتکم ورفع أصواتکم وإقامۃ حدودکم وسل سیوفکم، واتخذوا علی أبوابھا المطاھر، وجمروھا في الجمع‘‘.(باب ما یکرہ في المساجد، رقم الحدیث:۱ / ٧٥٠، ٢٤٧: دار الفکر)
وفي البحر:
’’وصرح في الظھیریۃ بکراھۃ الحدیث أي کلام الناس في المسجد، لکن قیدہ بأن یجلس لأجلہ، وفي فتح القدیر: الکلام المباح فیہ مکروہ بأکل الحسنات، وینبغي تقییدہ بما في الظھیریۃ، أما إن جلس للعبادۃ ثم بعدھا تکلم، فلا‘‘.(أعظم المساجد حرمۃ المسجد الحرام: ۳۹/۲: دار الکتاب الإسلامي)
وفي الھندیۃ:
’’الجلوس في المسجد للحدیث لا یباح بالاتفاق؛ لأن المسجد ما بني لأمور الدنیا، وفي خزانۃ القہ ما یدل علی أن الکلام المباح من حدیث الدنیا في المسجد حرام.قال: ولا یتکلم بکلام الدنیا، وفي صلاۃ الجلابي الکلام المباح من حدیث الدنیا یجوز في المساجد، وإن کان الأولی أن یشتغل بذکر اللہ تعالی، کذا في التمرتاشي‘‘.(الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ، ۳۲۲/۵: دار الفکر).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:175/85