مدرسہ کے لیے وقف شدہ زمین قبرستان کے لیے استعمال کرنے کا حکم

مدرسہ کے لیے وقف شدہ زمین قبرستان کے لیے استعمال کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی زمین کو مدرسہ اور قبرستان کے لیے اس طرح وقف کیا کہ قبرستان کے لیے دوکنال رقبہ درمیان میں اور اس کے آس پاس چاروں طرف اکاون کنال رقبہ مدرسہ کے لیے، وہاں کے دیگر حضرات نے واقف سے بات کی کہ ہم بھی اس قبرستان میں اپنے مردوں کی تدفین کریں گے، اس لیے ہم اپنی طرف سے رقبہ خرید کر اس قبرستان کے ساتھ ملحق کرنا چاہتے ہیں، تو واقف نے اس کی اجازت دے دی، اور واقف نے خود ہی وقف نامہ کے اندر یہ تحریر کردیا کہ ،اگر مذکورہ قبرستان کی وسعت کی ضرورت پیش آئی، تو موقوفہ اراضی سے ملحقہ زمین خرید کر قبرستان میں شامل کی جائے (جیسا کہ لف شدہ وقف نامہ میں موجود ہے)، اس کے بعد واقف کا انتقال ہوگیا، اب واقف سے بات کرنے والے حضرات نے مدرسہ کی موقوفہ اراضی کے ساتھ متصل ہی آٹھ مرلہ رقبہ خرید کر اسے قبرستان کے اندر وقف کردیا ہے، اور مدرسہ کی موقوفہ زمین کا وہ حصہ جو قبرستان کے ساتھ متصل ہے ،اس میں سے آٹھ مرلہ زمین کو قبرستان کے اندر شامل کرنا چاہتے ہیں، تو کیا اس صورت حال میں مدرسہ کی موقوفہ زمین کو قبرستان میں شامل کیا جاسکتا ہے، جب کہ موجودہ متولی حضرات اور واقف کے پسماندگان بھی اس پر راضی ہیں۔ حکم شرعی سے آگاہ فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں مدرسے کے لیے وقف شدہ مذکورہ اکیاون کنال زمین میں سے آٹھ مرلے زمین قبرستان کی زمین میں شامل کرنا جائز نہیں۔
لما في الفتاوی الھندیۃ:
’’البقعۃ الموقوفۃ علی جھۃ إذا بنی رجل فیھا بناء ووقفھا علی تلک الجھۃ، یجوز بلا خلاف تبعا لھا، فإن وقفھا علی جھۃ أخری، اختلفوا في جوازہ، والأصح: أنہ لا یجوز، کذا في الغیاثیۃ‘‘.(کتاب الوقف، الباب الثاني فیما یجوز وقفہ وما لا یجوز وفي وقف المشاع: ٢/ ٢٥٣:دار الفکر)
وفي حاشیۃ ابن عابدین:
’’وفي الإسعاف: ولا یجوز لہ أن یفعل إلا ما شرط وقت العقد. وفیہ: لو شرط في وقفہ أن یزید في وظیفۃ من یری زیادتہ أو ینقص من وظیفۃ من یری نقصانہ أو یدخل معھم من یری إدخالہ أو یخرج من یری إخراجہ جاز، ثم إذا فعل ذلک لیس لہ أن یغیرہ؛ لأن شرطہ وقع علی فعل یراہ فإذا رآہ وأمضاہ فقد انتھی ما رآہ. وفي فتاوی الشیخ قاسم: وما کان من شرط معتبر في الوقف فلیس للواقف تغییرہ ولا تخصیصہ بعد تقررہ ولا سیما بعد الحکم‘‘.(کتاب الوقف، مطلب لا یجوز الرجوع عن الشروط: ٦/ ٧٠٤: رشیدیۃ)
وفي البحر الرائق:
’’لا یجوز لمتولي الشیخونیۃ بالقاھرۃ صرف أحد الوقفین للآخر‘‘.(کتاب الوقف، ٥/ ٣٦٢: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:175/332