عمرے کے بدلے میراث سے دستبردار ہونے کا حکم

عمرے کے بدلے میراث سے دستبردار ہونے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اکبرحسین کے دو بیٹے تھے ایک کا نام شاہ حسین ہے اور دوسرے کا نام شیبان ہے اور اس کی  پانچ بیٹیاں ہیں: (١) محصنات (٢) طیبات (٣) مہرہ (٤) الہامہ (٥) عثمانیہ۔
اکبرحسین نےاپنی حیات ہی میں اپنی موروثہ زمین اپنے دونوں بیٹوں کے حوالے کی اور فرمایا کہ اپنی بہنوں کو دینا۔
اب ان بہنوں کا حصہ شاہ حسین کے پاس رہ گیا، شاہ حسین نے ان بہنوں سے کہا کہ میں تم سب کو عمرہ پر لے جاؤں گا، لیکن شرط یہ ہے کہ تم سب دستخط کرو زمین کے سلسلہ میں کہ وہ میری ہوگی، ان میں سے ایک بہن نے دستخط سے انکار کیا اور اپنا حصہ لیا باقی بہنوں سے دستخط کروایا اور گویا ایک قسم کی دھمکی دی کہ اگر دستخط نہ کیے ،تو رشتہ داری ختم ہوجائے گی مجبورا باقی چار بہنوں نے دستخط کرلیے اب شاہ حسین بھی مرگیا، اور چار بہنوں میں سے محصنات بھی فوت ہوگئی، آیا اب محصنات کی اولاد شاہ حسین کی اولاد سے اپنی والدہ(محصنات) کی میراث مانگتے ہیں، یہ مطالبہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اسی طرح باقی تین بہنیں بھی شاہ حسین کے اولاد سےمطالبہ کا حق رکھتی ہیں کہ نہیں؟
وضاحت: شاہ حسین نے اپنے بہنوں کو عمرہ کروایا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں شاہ حسین نے جب اپنی بہنوں کو ان کے حصے کے عوض عمرہ کرالیا، انہوں نے اپنے حصے کا عوض وصول کرلیا، اب ان کی اولاد میں سے کسی کو مطالبے کا حق نہیں ہے۔
لما في الھندیۃ:
’’إذا کانت الترکۃ بین ورثۃ، فأخرجوا أحدھما منھا بمال أعطوہ إیاہ والترکۃ عقار، أو عروض صح قلیلًا کان ما أعطوہ، أو کثیرًا‘‘.(کتاب الصلح، الباب الخامس عشر في صلح الورثۃ والوصي في المیراث والوصیۃ: 275/4، دار الفکر)
وفي التنویر مع الدر:
’’(أخرجت الورثۃ أحدھم عن) الترکۃ وھي (عرض أو) ھي (عقار بمال) أعطوہ لہ (أو) أخرجوہ (عن) ترکۃ ھی (ذھب بفضۃ) دفعوھا لہ (أو) علی العکس أو عن نقدین بھما (صح) في الکل صرفا للجنس بخلاف جنسہ (قل) ما أعطوہ (أو کثر) لکن بشرط التقابض فیما ھو صرف‘‘.(کتاب الصلح، فصل في التخارج: 329/12، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/106