عمرہ کرنے کا مسنون تفصیلی طریقہ

عمرہ کرنے کا مسنون تفصیلی طریقہ

سوال

علماء کرام سے گزارش ہے کہ عمرہ کرنے کا مسنون طریقہ مفصّل بیان فرما دیں۔

جواب

عمرہ کا قصد کرنے والا سب سے پہلے احرام کی تیاری کرے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کرے، کسی وجہ سے غسل نہ ہوسکے تو وضو کرے، اگر چاہے تو جسم پر ایسی خوشبو استعمال کرے، جس کا مادہ لگانے کے بعد نظر نہ آئے، پھر دو نئی یا دھلی ہوئے سفید چادر لے، ایک کا تہبند باندھے، دوسری اوپر کے حصہ پر اوڑھ لے، اس کے بعد اگر مکروہ وقت نہ ہو، تو سر ڈھانپ کر بہ نیت احرام دو نفل پڑھے، اور دعا مانگے، پھر ٹوپی اتار دے، اور قبلہ رو بیٹھ کر عمرہ کی نیت کرے:

اللهم إني أرید العمرة، فیسرها لي، وتقبلها مني․

(ترجمہ: اے اللہ! میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں، اسے آسان فرما دیجیے اور قبول فرما ئیے)

اس کے بعد بلند آواز سے تین بار تلبیہ پڑھے، جس کے الفاظ یہ ہیں:

لبیک اللهم لبیك، لبیك لا شریك لك لبیك

إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شریك لك

نیت وتلبیہ سے احرام کی پابندیاں اس پر لازم ہوگئیں، جن کی مکمل پاسداری کرے، اور نیت وتلبیہ کو میقات آنے سے پہلے کہہ لینا ضروری ہے، بہتر یہ ہے، کہ جہاز میں سوار ہونے کے بعد نیت وتلبیہ ادا کرے، کیوں کہ بعض مرتبہ فلائٹ تاخیر کا شکار ہوجاتی ہے، اور پھر احرام کی پابندیوں کا خیال رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، اور عورت کے لیے سلے ہوئے کپڑے پہنے گی، اور سر بھی ڈھانپے گی۔

احرام شروع ہوجانے کے بعد کثرت سے تلبیہ پڑھتے رہنا چاہیے، حرم، مکہ مکرمہ پھر مسجد حرام میں انتہائی عاجزی اور ادب واحترام کے ساتھ داخل ہو، طواف کے لیے با وضوء ہو کر عاجزی واحترام کے ساتھ بیت اللہ کے قریب آئے، اور مرد اضطباع کرلے، یعنی اوپر والی چادر دائیں بغل کے نیچے سے لا کر بائیں کندھے پر ڈالے، اور چادر کا بایاں حصہ بھی بائیں کندھے پر رکھے، اور حجر اسود کے پاس پہنچ کر تلبیہ کہنے سے رک جائے، اور جس طرف حجر اسود ہے، وہاں اس طرح کھڑا ہو، کہ دایاں کندھا حجر اسود کے مغربی کنارے کے مقابل ہو، اور پورا حجر اسود دائیں جانب رہے، اس کے بعد طواف کی نیت کر کے دائیں طرف اتنا چلے، کہ حجر اسود کے بالکل سامنے ہوجائے، اور حجرِ اسود کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر یہ پڑھے:

بسم الله والله أکبر، والصلاة والسلام علی رسول الله، اللهم إیمانًا بك وتصدیقًا بکتابك واتباعًا لسنة نبیك صلی الله علیه وسلم․

پھر ہاتھ چھوڑ کر استلام کے لیے حجر اسود کے پاس آئے، بشرطیکہ وہاں رش نہ ہو، اور حجر اسود تک پہنچنا ممکن ہو، اور استلام کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ حجر اسود پر رکھے، اور اپنا منہ دونوں ہاتھوں کے درمیان لا کر اسے بوسہ دے، پھر یہ مستحب ہے کہ چہرہ یا پیشانی اس پر رکھے، نیز یہ عمل (بوسہ دے کر چہرہ یا پیشانی رکھنا) تین بار کرنا بھی مستحب ہے، اور اگر ہجوم کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکے، تو اپنے دونوں ہاتھوں سے ورنہ دائیں ہاتھ سے یا پھر کسی چیز مثلاً چھڑی سے حجر اسود کو چھو کر اسے بوسہ دے بشرطیکہ حجر اسود کو خوشبو نہ لگی ہو، اگر اسے خوشبو لگی ہو یا چھونا ممکن نہ ہو، تو استلام یوں کرے: کہ دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائے کہ ہتھیلیاں حجر اسود کی طرف اور ہاتھوں کی پشت اپنی طرف ہو، اور یہ تصور کرے، کہ ہاتھ حجر اسود پر رکھے ہیں، اور «الله أکبر، لا إله إلا الله، والصلاة والسلام علی رسول الله» کہہ کر ہتھیلیوں کو چوم لے، استلام کے بعد بائیں طرف مڑے، اور بیت اللہ کو اپنی بائیں طرف رکھتے ہوئے طواف شروع کرے، مرد طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کرے، یعنی اکڑ کر کندھے ہلاتے ہوئے ذرا تیزی کی ساتھ قریب قریب پاوٴں رکھ کر چلے، جب کہ زیادہ مجمع کے باعث رمل کرنے میں مشقت نہ ہو، ورنہ جیسے ممکن ہو، طواف کرلے، باقی چار چکروں میں عام چال سے چلے، عورت رمل نہیں کرے گی، دورانِ طواف آہستہ آواز سے ذکر و دعا میں مشغول رہے، بیت اللہ کے چوتھے کونے یعنی رکن یمانی پر پہنچ کر اسے دونوں ہاتھ یا دایاں ہاتھ لگا کر بوسہ دییے بغیر استلام کرے بشرطیکہ اسے خوشبو نہ لگی ہو، اور اگر ہاتھ لگانا ہجوم کی وجہ سے مشکل ہو، تو ہاتھ سے اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں، رکن یمانی سے حجر اسود والے کونے کی طرف جاتے ہوئے یہ پڑھے:

ربنا آتنا في الدنیا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار․

حجر اسود پر پہنچ کر اس کی طرف رخ کر کے اس کا حسبِ سابق استلام کرے، ایک چکر مکمل ہوا، استلام کرتے ہی طواف کے لیے حجر اسود سے رخ پھیرے، اور دوسرا چکر شروع کرے، اسی طرح سات چکر مکمل کرنے کے بعد آٹھویں بار استلام کرے، اب اضطباع ختم کرے، اور وقت مکروہ نہ ہو، تو مقام ابراہیم کے پیچھے آ کر دو رکعت ادا کرے، یہ واجب ہیں، اگر بھیڑ کی وجہ سے وہاں ممکن نہ ہو، تو مسجدِ حرام میں جہاں چاہے ادا کرلے، طواف مکمل ہوا، پھر آبِ زم زم پیے اور دعا کرے۔

اب سعی کرے گا، جس کے لیے پہلے حجر اسود کا استلام کرے، اور پھر صفا کی طرف چلے، اس کے قریب پہنچ کر یہ پڑھے:

أبدأ بما بدأ الله تعالی به إن الصفا والمروة من شعائر الله․

پھر اس پر چڑھے، اور بیت اللہ کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو، اور ہاتھ کندھوں تک اٹھائے، جیسا کہ دعا میں اٹھاتے ہیں، اس کے بعد تین بار «لا إله إلا الله والله أکبر» پڑھے، پھر تین مرتبہ یہ کلمات کہے:

لا إله إلا الله وحده لا شریك له له الملك وله الحمد، وهو علی کل شيء قدیر، لا إله إلا الله وحده، أنجز وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده․

پھر آہستہ آواز سے درود شریف پڑھ کر خوب خشوع سے اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے جو چاہے، دعا مانگے، کہ یہ قبولیت کی جگہ ہے، اس کے بعد ذکر ودعا کرتے ہوئے مروہ کی جانب چلے، اور صفا ومروہ کے درمیان یہ دعا پڑھے:

اللهم اغفر وارحم وأنت الأعز الأکرم

اس کے علاوہ جو چاہے، دعا پڑھے، آگے دو سبز لائٹوں کے درمیان مرد درمیانی رفتار سے دوڑے، لیکن خاتون وہاں بھی حسب معمول عام چال چلے، سبز لائٹوں سے گزرنے کے بعد مرد بھی عام چال چل کر مروہ تک پہنچے، اور یہاں بھی بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو، اور صفا کی طرح ذکر و دعا میں مشغول ہو، یہ سعی کا ایک چکر ہوگیا، پھر مروہ سے صفا کی جانب چلے، اور سابقہ طریقے پر دو سبز لائٹوں کے بیچ دوڑ کر چلے، اور صفا پر پہنچ کر پہلے طریقے کے مطابق ذکر و دعا کرے، یہ دوسرا چکر بھی مکمل ہوا، اسی طرح سے سات چکر مکمل کرے، ساتواں چکر مروہ پہنچ کر پورا ہوگا، سعی کے چکر مکمل کرنے کے بعد مسجد حرام میں چحا رک مطاف کے کنارے پر دو رکعت نفل پڑھے، جب کہ مکروہ وقت نہ ہو، یہ نفل صرف مستحب ہیں، لازم نہیں، پھر مرد سر کے بال منڈوائے، یا انگلی کے ایک پورے کے برابر سارے بال کٹوائے، خاتون ایک پورے کے برابر سر کے بال فقط کٹوائے، نیز مرد کے لیے منڈوانا افضل ہے، اس کے ساتھ عمرہ مکمل ہو کر احرام کی پابندیاں ختم ہوئیں، اب عام لباس پہن لے۔

مزید تفصیل کے لیے ”معلم الحجاج“ موٴلفہ مفتی سعید احمد مظاہری رحمہ اللہ ملاحظہ فرمائیں۔

لما في الدر مع الرد:

(والعمرة) ...(وهي إحرام وطواف وسعي) وحلق أو تقصير، فالإحرام شرط، ومعظم الطواف ركن، أو غيرهما واجب هو المختار، ويفعل فيها كفعل الحاج (وجازت في كل السنة) وندبت في رمضان (وكرهت) تحريمًا (يوم عرفة وأربعة بعدها) قوله: (وحلق أو تقصير) لم يذكره المصنف لأنه محلل مخرج منها. بحر، قوله: (وغيرهما واجب) أراد بالغير من المذكورات هنا، وذلك أقل أشواط الطواف والسعي والحلق أو التقصير،وإلا فلها سنن ومحرمات من غير المذكور هنا فافهم...وأحكام إحرامها كإحرام الحج من جميع الوجوه، وكذا حكم فرائضها، وواجباتها وسننها ومحرماتها ومفسدها ومكروهاتها وإحصارها.(كتاب الحج، مطلب: أحكام العمرة: 3/545، 546، رشيدية)

وفي إرشاد الساري:

(ومواصفتها) أي: كيفية العمرة مجملة (فهي أن يحرم بها من الحل كإحرام الحج) أي: مثل صفة إحرامه في آدابه وسننه بلا فرق إلا في تعيين النية، فيفعل عند إحرامها ما يفعل في إحرام الحج (ويتقي فيه) وفي نسخة فيها أي: في إحرام العمرة ..... (ما تبقي في الحج) أي: من محظورات الإحرام ومكروهاته ومفسداته (فإذا دخل مكة بدأ بالمسجد) أي: بدخوله من باب السلام على ما هو الأفضل ...... (وطاف برمل) أي: في الثلاثة الأول (واضطباع) أي: في جميع طوافها (وقطع التلبية عند أول استلام الحجر) أي: بعد نية طوافها (وطاف سبعة أشواط) أربعة منها فرض، والباقي واجب ... (ثم صلي ركعتيه) أي: ركعتي الطواف وجوبًا عندنا (وخرج للسعي) والأفضل من باب الصفا (فسعى كالحج) أي: كسعيه (ثم حلق) يعني أو قصر (وحل) أي: خرج عن إحرامها. (باب العمرة، ص: 510، دار الكتب العلمية)

(ثم يقف مستقبل البيت بجانب الحجر الأسود مما يلي الركن اليماني بحيث يصير جميع الحجر عن يمينه ويكون منكبه الأيمن عند طرف الحجر، فنوى الطواف، وهذه الكيفية مستحبة) .... (والنية فرض) ..... ثم يمشي مارًا إلى يمينه) .... (حتى يحاذي الحجر) ....... فيقف بحياله) .... (ويستقبله) ..... (ويبسمل ويكبر ويحمد ويصلي ويدعو). (إرشاد الساري، باب دخول مكة، فصل: في صفة الشرع في الطواف إذا أراد الشروع فيه، ص: 144، دار الكتب العلمية، بيروت)

وفي مسند أحمد:

عن أبي يعفور العبدي قال: سمعت شيخًا بمكة في إمارة الحجاج يحدث عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: «يا عمر إنك رجل قوي، لا تزاحم على الحجر فتؤذى الضعيف، إن وجدت خلوة فاستلمه وإلا فاستقبله فهلل وكبر». (مسند عمر بن الخطاب رضي الله عنه، رقم: 191، 1/48، دار إحياء التراث)

وإذا دنى من الصفا يستحب أن يقول: «أبدأ بما بدأ الله به (إن الصفا والمروة من شعائر الله)». (غنية الناسك، باب السعي بين الصفا والمروة، فصل: في كيفية أداء السعي، ما يقال عند الدنو من الصفا، ص: 208، المصباح لاهور)

فلما دنا من الصفا قرأ: (إن الصفا والمروة من شعائر الله) «أبدأ بما بدأ الله به .... فوحد الله وكبّره وقال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله وحده، أنجز وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده، ثم دعا بين ذلك قال مثل هذا ثلاث مرات. (صحيح مسلم، كتاب الحج، باب حجة النبي صلى الله عليه وسلم، رقم: 2950، 148-(1218) ص: 514، دار السلام الرياض)

ثم حفض صوته فيحمد الله ويثني عليه ويصلي على النبي صلى الله ويدعو بما شاء لنفسه وللمسلمين. (غنية الناسك، باب السعي بين الصفا .... فصل: في كيفية أداء السعي، ص: 209، المصباح لاهور). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 176/160