طواف کے دوران بیت اللہ کی جانب منہ کرکے چلنا

طواف کے دوران بیت اللہ کی جانب منہ کرکے چلنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ عمدہ الفقہ کتاب الحج ص ۱۷۲ میں مولانا سید زوار حسینؒ مسئلہ نمبر ۷کے تحت فرماتے ہیں ، ہمارے فقہاء کے نزدیک طواف میں چلنے کی حالت میں بیت اﷲ شریف کی طرف منہ کرنا جائز نہیں ہے،پس جب حجراسود یا رکن یمانی کے استلام کے وقت بیت اﷲ کی منہ کرے تو اپنے دونوں قدم اپنی جگہ پر قائم رکھنے چاہییں اور جب استلام سے فارغ ہو جائے تو چلنے سے پہلے یعنی کھڑا  ہونے کی حالت میں اپنے دائیں مڑ جائے اور بیت اﷲکو اپنے بائیں طرف کرے اور اسی حالت پر جائے جس پر طواف کرتے ہوئے بیت اﷲ کی طرف منہ کرنے سے پہلے تھا، پھر طواف کرنا شروع کرے کیوں کہ اگر بیت اﷲ شریف منہ  کرنے کی حالت میں اس کے دونوں قدم بیت اﷲ کے دروازے کی طرف سرک گئے خوا ہ تھوڑا ہی سرکے ہوں او رپھر وہاں سے طواف شروع کرے تو وہ اپنے طواف کا کچھ حصہ بیت اﷲ کی طرف منہ کرنے کی حالت میں طے کرنے والا ہو گا، یعنی اس طرح اس کے طواف کا اس قدر حصہ ترک واجب کی وجہ سے قابل اعادہ ہو گا اورا عادہ نہ کرنے کی صورت میں جزا لازم ہو گی۔

رد المحتار شامی ص ۱۶۷، ج ۲ میں اسی طرح ہے کہ اگر کسی نے کعبہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرکے طواف آڑے ہو کر کیا تب اس کا اعادہ واجب ہے او راگر وطن چلا گیا تو دم دینا، یعنی مسئلہ غالباً یہ نہیں ہےکہ اگر کسی نے تھوڑی دیر کے لیے بھی کعبہ شریف کی طرف منہ یا پیٹھ کر لی تو اعادہ واجب یا دم؟ مولانا زوار حسین صاحب نے مندرجہ بالا مسئلہ کو غینہ کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے، براہ کرم مطلع فرمائیے کہ مندرجہ بالا دونوں اقوال میں سے مفتی بہ قول کو ن سا ہے؟

جواب

صورت مسؤلہ میں فقہا نے لکھا ہے کہ دوران طواف بیت اﷲ شریف کی طرف منہ کرنا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے کعبہ شریف کی طرف منہ یا پیٹھ کرکے طواف کیا تو اس کا اعادہ واجب ہے،جب تک مکہ میں ہے اگر اس نے اعادہ نہیں کیا اور وطن آگیا تو اس پر دم واجب ہے جیسا کہ علامہ شامی نے فرمایا۔

(عن یمینہ مما یلی الباب) فتصیر الکعبۃ عن یسارہ لأن الطائف کالمؤتم بہا والواحد یقف عن یمین الإمام، ولو عکس أعاد مادام بمکۃ فلو رجع فعلیہ دم وکذا لو ابتدأ من غیر الحجر کما مر.

وفی الرد:(قولہ عن یمینہ) أی یمین الطائف لا الحجر وقولہ مما یلی الباب:أی باب الکعبۃ تأکید لہ وہذا واجب فی الأصح کما مر (قولہ ولو عکس)بأن أخذ عن یسارہ وجعل البیت عن یمینہ،وکذا لو استقبل البیت بوجہہ أو استدبرہ وطاف معترضا کما فی شرح اللباب وغیرہ.(ردالمحتار، کتاب الحج ٢/٤٩٤،سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی