شوال کے مہینے میں عمرہ کرنے سے حج کی فرضیت کا حکم

شوال کے مہینے میں عمرہ کرنے سے حج کی فرضیت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی شخص اگر شوال المکرم کے مہینے میں عمرہ ادا کرے، تو کیا اس شخص پر حج بھی فرض ہو جاتاہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر کوئی ایسا شخص جس پر حج فرض نہ تھااوروہ رمضان میں عمرہ کرنے گیا، پھر عید کے بعد شوال کے مہینے میں اس نے مکہ مکرمہ جاکر عمرہ کرلیا، یا ماہِ شوال میں اپنے وطن سے عمرہ کی ادائیگی کے لیے گیا، اور اس کے پاس حج کے ایام تک قیام کےاسباب مہیا ہوں اور حکومت کی طرف سے اس کو حج تک رکنے کی اجازت بھی ہو اور اس نے پہلے حج فرض بھی نہ کیا ہو تو  اس پر حج فرض ہو جائے گا،البتہ اگر حج کے ایام تک قیام کے اسباب مہیا نہ ہوں، یا پھر قیام کےاسباب تو ہوں، لیکن حکومتِ سعودیہ کی طرف سے حج کے ایام تک قیام کرنے کی اجازت نہ ہو (جیساکہ موجودہ زمانہ میں ہوتا ہے)، تو اب اُس پر حج فرض نہیں ہوگا۔ نیز جو شخص اپنا فرض حج پہلے کرچکا ہے، اس پر شوال میں عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوگا۔

وفي التنویر مع الدر:
’’(صحيح) البدن (بصير) غير محبوس وخائف من سلطان يمنع منه‘‘.(تنویر الابصار،کتاب الحج:۲/۴۵۹،دارالفکر بیروت)
وقال إبن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ:
’’(قوله:صحيح البدن) أي سالم عن الآفات المانعة عن القيام بما لا بد منه في السفر، فلا يجب على مقعد ومفلوج وشيخ كبير لا يثبت على الراحلة بنفسه وأعمى، وإن وجد قائدا، ومحبوس، وخائف من سلطان لا بأنفسهم، ولا بالنيابة في ظاهر المذهب عن الإمام وهو رواية عنهما وظاهر الرواية عنهما وجوب الإحجاج عليهم، ويجزيهم إن دام العجز وإن زال أعادوا بأنفسهم.
والحاصل: أنه من شرائط الوجوب عنده ومن شرائط وجوب الأداء عند هما وثمرة الخلاف تظهر في وجوب الإحجاج والإيصاء كما ذكرنا وهو مقيد بما إذا لم يقدر على الحج وهو صحيح فإن قدر ثم عجز قبل الخروج إلى الحج تقرر دينا في ذمته، فيلزمه الإحجاج، فلو خرج ومات في الطريق لم يجب الإيصاء لأنه لم يؤخر بعد الإيجاب ولو تكلفوا الحج بأنفسهم سقط عنهم وظاهر التحفة اختيار قولهما وكذا الإسبيجابي وقواه في الفتح ومشى على أن الصحة من شرائط وجوب الأداء اهـ من البحر والنهر، وحكى في اللباب اختلاف التصحيح وفي شرحه أنه مشى على الأول في النهاية وقال في البحر العميق إنه المذهب الصحيح وأن الثاني صححه قاضي خان في شرح الجامع واختاره كثير من المشايخ ومنهم ابن الهمام (قوله بصير) فيه الخلاف المار كما علمته (قوله غير محبوس) هذا من شروط الأداء كما مر والظاهر أنه لو كان حبسه لمنعه حقا قادرا على أدائه لا يسقط عنه وجوب الأداء.
[تنبيه]
ذكر في شرح اللباب عن شمس الإسلام أن السلطان ومن بمعناه من الأمراء ملحق بالمحبوس فيجب الحج في ماله الخالي عن حقوق العباد وتمامه فيه ولا يخفى أن هذا إن دام عجزه إلى الموت وإلا فيجب عليه الحج بنفسه بعد زوال عذره وهو مقيد أيضا بما إذا كان قادرا على الحج ثم عجز وإلا فلا يلزمه الإحجاج على الخلاف المذكور آنفا (قوله يمنع منه) أي من الحج أي الخروج إليه‘‘.(رد المحتار،کتاب الحج:۲/۴۵۹،دارالفکر بیروت).فقط.واللہ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی