سود والی رقم سے حج بدل کروانا

سود والی رقم سے حج بدل کروانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک صاحب سود پر پیسے لیتے دیتے تھے، فوت ہو گئے ان کی نرینہ اولاد نہ تھی، ان کی بیٹیوں کو ایک مال دار شخص اور اس کی بیوی نے حج بدل کے لیے آمادہ کر لیا، دونوں میاں بیوی اس سودی ترکے سے حج کے لیے چلے گئے، حالاں کہ وہ دونوں پہلے بھی حج کر چکے تھے، ایسے حج کی قرآن وسنت کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟ اور ایسے میاں بیوی کے ساتھ اہل اسلام کو کیا معاملہ کرنا چاہیے؟

جواب

سود کھانے اور کھلانے والے پر اﷲ کی لعنت ہے، ایسی رقم سے کیے گئے حج پر کوئی ثواب نہیں ملتا ، یہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص بادشاہ کے دربار میں غلاظت اور نجاست سے لت پت ہو کر جائے، لہٰذا ایسا حج بدل جس نے کیا اور جس کی طرف سے کیا گیا دونوں کو کوئی ثواب نہیں ملا، ایسے میاں بیوی پر توبہ واستغفار لازم ہے۔

"من حج بمال حرام فقال: لبيك اللهم لبيك؛ قال الله عز وجل: لا لبيك ولا سعديك وحجك مردود عليك".(کنز العمال: 27/5، ط: مؤسسة الرسالة)

"وهذا كله في حج الفرض أما في حج النفل فطاعة الوالدين أولى مطلقا كما صرح به في الملتقط ويشاور ذا رأي في سفره في ذلك الوقت لا في نفس الحج فإنه خير وكذا يستخير الله في ذلك ويجتهد في تحصيل نفقة حلال فإنه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث مع أنه يسقط الفرض عنه معها".(البحر الرائق: 332/2، ط: دار الکتاب الاسلامی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی