سرکاری یا نجی اداروں کا ملازمین کو حج کے لیے بھیجنا

سرکاری یا نجی اداروں کا ملازمین کو حج کے لیے بھیجنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ۱۔ حکومت پاکستان اور اس کے مختلف محکمے اسی طرح نیم سر کاری اور غیر سرکاری ادارے مختلف افراد کو مفت حج، عمرہ کرواتے ہیں ان مفت حج کرنے والے افراد میں وہ بھی ہوتے ہیں جو غریب ہوتے ہیں اور اپنے طور پر حج کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود صاحب استطاعت ہوتے ہیں،مسئلہ زیر غور کے حوالے سے دریافت یہ کرنا ہے:

(۱) کیا مفت حج کروانا یا کرنا درست ہے؟

(۲) کیا صاحب استطاعت اور غریب دونوں کا ایک ہی حکم ہے یا الگ الگ احکام ہیں؟

(۳) کیا حکومت یا کوئی بھی سرکاری/ غیر سرکاری ادارہ اس کا مجاز ہے کہ کسی کو مفت حج پر بھجوائے؟

(۴) کیا کسی فرد کو کسی شعبہ میں اس کی اعلیٰ ونمایاں کارکردگی کے صلے/ انعام کے طور پر مفت حج پر بھیجا جاسکتا ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب سے مستفید فرمائیں۔

جواب

(۱،۲) سرکاری یا نجی ادارے مختلف صورتوں میں اپنے ملازمین کو مختلف النوع سہولتیں فراہم کرتے ہیں، جب یہ سہولتیں حکومتی قوانین میں درج ہوں، یا نجی ادارے اپنی طرف سے ملازمین کے لیے جاری کریں تو ملازمین کے لیے ایسے فوائد حاصل کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ اداروں کی طرف سے عطیہ اور تعاون ہوتا ہے جس طرح یہ فوائد حاصل کرنا جائز ہے، اسی طرح ادارے کی رقم سے حج ادا کرنا جائز ہے، چاہے ملازمین صاحب استطاعت ہوں یا غربت کی زندگی گزار رہے ہوں اور آئندہ کے لیے ان سے فرض ساقط ہو جائے گا ،چاہے بعد میں صاحب استطاعت ہی کیوں نہ ہو جائیں،کیوں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مطلقاً فرمادیا ” حج فرض ایک مرتبہ ہی ہوتا ہے۔ جو اس سے زیادہ مرتبہ کرے گا وہ نفل شمار ہو گا۔”

لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ حج جیسی مقدس عبادت کے لیے بھیجنا اللہ کی رضا  اور استحقاق کی بنیاد پر ہونا چاہیے سیاسی رشوت کے طور پر یا انتخاب میں بے ضابطگی برت کر نہیں، ورنہ کسی پر مخفی نہیں ہے کہ ایسا حج لپیٹ کر منہ پر مار دیا جائے گا۔

(۳) سرکاری یا نجی ادارے اس طرح ادائیگی حج کے لیے بھیجنے کے مجاز ہیں، جب کہ قوانین کی پابندی کی جائے اور ادارے کے سربراہ کی طرف سے قواعد کے مطابق افراد کا انتخاب کیا گیا ہو۔

(۴) او رملازمین کو حسن کارگردگی کی بنا پر بھی حج کروایا جاسکتا ہے، البتہ اتنا ضروری ہے کہ اگر زکوٰۃ کی رقم سے حج کروایا جائے تو اس شخص کا مستحق زکوٰۃ ہونا بھی لازم ہے اور اگر بعض آفیسرز قوانین کی پابندی نہ کریں اور متعلقہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حق دار اور مستحق اشخاص کی بجائے غیر مستحق افراد کو بھیج دیں تو ایسا کرنا جائز نہ ہو گا۔

ھو زیارۃ مکان مخصوص بفعل مخصوص فرض مرۃ علی الفور علی مسلم حر مکلف صحیح ذی زاد وراحلۃ فضلا عمالا بدمنہ ونفقۃ عیالہ إلی عودہ مع أمن الطریق .( تنویرالابصار ، کتاب الحج،٢/٤٥٤۔٤٦٣،سعید)

الفقیر إذا حج ماشیا ثم أیسر لا حج علیہ ہکذا فی فتاوی قاضی خان.... أما فرضیتہ۔۔۔۔وأن لا یجب فی العمر إلا مرۃ کذا فی محیط السرخسی.(الھندیۃ، کتاب الحج، ١/٢١٦،٢١٧، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی