سائل کا مسجد میں سوال کرنا کیسا ہے؟

سائل کا مسجد میں سوال کرنا کیسا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مساجد میں سوال کرنا کیسا ہے؟ اگر کوئی شخص ایسے سائل کو مسجد میں آنے سے روک دے ،تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

اگر سائل واقعتا ضرورت مند ہے اور نمازی حضرات کا خیال رکھتا ہے، تو اس کے لیے مسجد میں سوال کرنے کی گنجائش ہے تاہم اس کے لیے بہتر صورت یہ ہے کہ سائل مسجد میں خود سوال نہ کرے، بلکہ مسجد انتظامیہ والوں سے ملے، اور وہ تحقیق کریں کہ واقعتا ضرورت مند ہے یا نہیں، اگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ سائل واقعتا ضرورت مند ہے، تو امام صاحب مختصر الفاظ میں اعلان کریں اور سائل مسجد سے باہر کھڑے ہو کر چندہ جمع کرے۔
اگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ سائل حاجت مند نہیں،سوال کرنا اس کا پیشہ ہے اور نمازی حضرات کا خیال نہیں رکھتا، (یعنی لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہے اور نمازی حضرات کی سامنے سے گزرتا ہے)تو اس کے لیے مسجد میں سوال کرنا جائز نہیں، اور اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر مسجد میں سوال کرنے سے منع کیا جائے۔
لما في رد المحتار:
’’مطلب في الصدقۃ علی سؤال المسجد‘‘.
’’(قولہ:ویکرہ التخطي للسوال )قال في النھر والمختار: أن السائل إن کان لا یمر بین یدي المصلي، ولا یتخطی الرقاب، ولا یسأل إلحاقًا بل لأمر لا بد منہ، فلا بأس بالسؤال، والإعطاء اھـ. ومثلہ في البزازیۃ: وفیھا ولا یجوز الإعطاء إذا لم یکونوا علی تلک الصفۃ المذکورۃ ،قال الإمام أبو نصر العیاضي:أرجو أن یغفر اللہ لمن یخرجھم من المسجد، وعن الإمام خلف بن أیوب: لو کنت قاضیًا لم أقبل شہادۃ من یتصدق علیھم اھـ، وسیأتي في باب المصرف أنہ لا یحل أن یسأل شیئًا من لہ قوت یومہ بالعفل، أو بالقوۃ کالصحیح المکتسب، ویأثم معطیہ إن علم بحالہ لإعانتہ علی المحرم‘‘.(کتاب الصلاۃ، مطلب في الصدقۃ علی سؤال المسجد: 47/3، رشیدیۃ)
وفیہ أیضًا:
’’یکرہ إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم یتخط رقاب الناس في المختار کما في الاختیار ومتن مواھب الرحمن لأن علیا تصدق بخاتمہ في الصلاۃ فمدحہ اللہ بقولہ:«ویؤتون الزکاۃ وھم راکعون».(کتاب الحظر والإباحۃ:675/9،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/136