بلوغت کے لیے کم از کم مدت کتنی ہے؟

بلوغت کے لیے کم از کم مدت کتنی ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک دس سال کا لڑکا جو اب تک بالغ نہیں ہوا ہے، کسی غیر نے زبردستی اس کے اندام مخصوص کو رگڑ لیا جس کی وجہ سے بندے کو انزال ہوا، تو کیا یہ بالغ شمار ہوگا یا نہیں؟ نیز اسی سال اس نے روزے بھی نہیں رکھے، تو اس پر قضاء ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کی علاماتِ بلوغت کا اعتبار تب ہوگا جب وہ سن مراہقت کو پہنچ جائے، اور سن مراہقت کی کم از کم مدت بارہ سال ہے، لہذا صورت مسئولہ میں دس سال کا لڑکا بالغ شمار نہیں ہوگا، اس لیے اس پر روزوں کی قضاء بھی لازم نہیں ہوگی۔
لما في البحر الرائق:
’’(وأدنی المدۃ في حقہ اثنتا عشرۃ سنۃ، وفي حقھا تسع سنین) یعني لو ادعیا في ھذہ المدۃ تقبل منھما....... ولا تقبل فیما دون ذلک؛ لأن الظاھر تکذیبہ، قال في العنایۃ: ثم قیل إنما یعتبر قول بالبلوغ إذا بلغ اثنتي عشرۃ سنۃ فأکثر، وقد أشار إلیہ بقولہ: (أدنی المدۃ) وھذہ المدۃ مذکورۃ في النھایۃ وغیرھا، ولا یعرف إلا سماعا أو بالتتبع‘‘.(کتاب الإکراہ، باب الحجر، فصل في حد البلوغ:154/8:رشیدیۃ)
وفي الدر مع الرد:
’’فلو جامع غیر مراھق زوجۃ أبیہ أم تحرم.فتح. لا بد في کل منھما من سن المراھقۃ وأقلہ للاثني تسع وللذکر اثنتا عشرۃ؛ لأن ذلک أقل مدۃ یمکن فیھا البلوغ کما صرحوا بہ في باب بلوغ الغلام‘‘.(کتاب النکاح، فصل في المحرمات:306/2:ایچ ایم سعید).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/23