زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا حکم

زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ راقم کا ایک مکان ہے ،جس میں پانچ حصے ہیں، چار کرائے پر ہیں اور ایک ہمارے استعمال میں ہے، ان چاروں حصوں کو میں اپنے چاروں بچوں کے نام کرنا چاہتا ہوں اور پانچواں حصہ اپنی بیوی کے نام کرنا چاہتا ہوں، لیکن اس کے ساتھ میری یہ خواہش ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں ان چاروں حصوں کا کرایہ میں وصول کروں، نیز بیوی کے حصہ میں موجود میرا سامان نکالے بغیر اپنی بیوی کی ملکیت میں دے کر اس کی اجازت سے استعمال کروں، کیا یہ مناسب ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد اور بیوی کے نام کرنا شریعت میں ہبہ (ہدیہ) شمار ہوگا اور ہبہ کے مکمل ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ جس کو ہبہ کیا جارہا ہے ،اس کو اس پر مکمل قبضہ اور مالکانہ تصرف کا حق دے دیا جائے، اس کے بغیر ہبہ تام نہیں ہوتا۔
 لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ اپنے بچوں کو مکان ہبہ کرنا چاہتے ہیں، تو آپ ان کا کرایہ وصول نہیں کرسکتے، اگر کرایہ وصول کرنے کا اختیار آپ اپنے پاس رکھیں گے، تو ہبہ مکمل نہیں ہوگا، ہاں اگر آپ ہبہ کی بجائے مکان کا ہر ایک حصہ الگ الگ ہر ایک پر فروخت کریں اور جو کرایہ آرہا ہے، اس کو قیمت کی مد میں وصول کریں، تو اس کی گنجائش ہے بشرطیکہ بچے اس پر راضی ہوں اور باقاعدہ ہر حصے کی کل قیمت متعین ہو، مکمل قیمت کی وصول کی صورت میں مزید کسی طرح کا ان سے مطالبہ نہ ہو، اسی طرح اہلیہ کو بھی ہدیہ کرنے کی صورت میں خالی مکان کا قبضہ دینا لازم ہے، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مذکورہ ومتعینہ حصہ سامان سمیت ان کو ہدیہ کریں۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(و) شرائط صحتھا (في الموھوب: أن یکون مقبوضا، غیر مشاع، ممیزا غیر مشغول) کما سیتضح (ورکنھا):ھو (الإیجاب والقبول) کما سیجیئ‘‘.
وتحتہ في الرد:
’’(قولہ:أن یکون مقبوضا) فلا یثبت الملک للموھوب لہ قبل القبض کما قدمنا. وفي الزیلعي: وأما القبض فلا بد منہ لثبوت الملک، إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق‘‘.(کتاب الھبۃ: ١٢/ ٥٣٨:دار الفکر بیروت)
وفي الھدایۃ:
الھبۃ عقد مشروع لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:تھادوا تحابوا وعلی ذلک انعقد الإجماع، وتصح بالإیجاب والقبول والقبض، أما الإیجاب والقبول فلأنہ عقد، والعقد ینعقد بالإیجاب والقبول، والقبض لا بد منہ لثبوت الملک، وقال مالک رحمہ اللہ: یثبت الملک فیہ قبل القبض اعتبارا بالبیع، وعلی ھذا الخلاف الصدقۃ، ولنا قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا تجوز الھبۃ إلا مقبوضۃ‘‘.(کتاب الھبۃ: ٣/ ٢٨٥:رحمانیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/243