دو مختلف ممالک کی کرنسیوں کا ادھار اور کمی زیادتی کے ساتھ تبادلے کا حکم

دو مختلف ممالک کی کرنسیوں کا ادھار اور کمی زیادتی کے ساتھ تبادلے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں کسی سے ایرانی کرنسی یعنی تو من ایک مہینہ کے ادھار پر پاکستانی کرنسی کے بدلے لیتا ہوں، اور ایک مہینہ کا اس کو چیک دیتا ہوں، لیکن ادھار کی وجہ سے وہ شخص پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں تو من کچھ کم کرکے دیتا ہے، تو کیا اس طرح کمی زیادتی کے ساتھ تبادلہ اور ادھار کا معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو جواز کی کوئی صورت بن سکتی ہے یانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ موجودہ دور میں کرنسی ثمن عرفی کی حیثیت رکھتی ہے، جوکہ فلوس نافقہ کے حکم میں ہے اور اس میں کمی بیشی اور ادھار کے ساتھ خرید وفروخت جائز ہے، بشرطیکہ جنس مختلف ہو اور مجلس عقد میں ایک طرف سے قبضہ پایا جائے، نیز ہر ملک کی کرنسی کی جنس دوسرے ملک کی کرنسی سے مختلف ہوتی ہے، چوں کہ صورت مسئولہ میں دونوں کرنسیوں کی جنس مختلف ہے اور مجلس عقد میں ایک طرف سے قبضہ بھی پایا جارہا ہے۔
لہذا آپ کا پاکستانی کرنسی کا تبادلہ ایرانی کرنسی سے کرنے کی دو صورتوں میں گنجائش ہے، البتہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ قیمت سے کمی بیشی کے ساتھ خرید وفروخت جائز نہیں ہے اور حکومت کی طرف سے اگر ادھار کی کوئی قیمت مقرر ہو، تو اس سے کمی بیشی کے ساتھ خرید وفروخت بھی جائز نہیں ہے۔
لما في تکملۃ فتح الملہم:
’’وأما الأوراق النقدیۃ وھي التي تسمی نوت......فالذین یعتبرونھا سندات دین، ینبغي أن لا یجوز عندھم مبادلۃ بعضھا ببعض أصلا، لاستلزام بیع الدین بالدین، ولکن قدمنا ھناک أن المختار عندنا قول من یجعلھا أثمانا، وحینئذ تجري علیھا أحکام الفلوس النافقۃ سواء بسواء وقدمنا آنفا أن مبادلۃ الفلوس بجنسھا لا یجوز بالتفاضل عند محمد رحمہ اللہ، ینبغي أن یفتی بھذا القول في ھذا الزمان سدا لباب الربا، وعلیہ فلا یجوز مبادلۃ الأوراق النقدیۃ بجنسھا متفاضلا، ویجوز إذا کانت متماثلا......وأما العملۃ الأجنبیۃ من الأوراق فھي جنس آخر، فیجوز بالتفاضل، فیجوز بیع ثلاث ربیات باکستانیۃ بریال واحد سعودي‘‘.(کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، حکم الأوراق النقدیۃ: ١/ ٥٨٩، ٥٩٠:دا رالعلوم کراچی)
وفي تبیین الحقائق:
’’قال رحمہ اللہ: (فحرم الفضل والنساء بھما) أي بالجنس والقدر لما بینا أنھما علۃ الربا .قال رحمہ اللہ: (والنساء فقط بأحدھما) أي حرم النساء وحل التفاضل بوجود أحدھما إما القدر دون الجنس کالحنطۃ بالشعیر أو الجنس دون القدر کالھروي بالھروي لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام (الذھب بالذھب والفضۃ بالفضۃ والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء فإذا اختلفت ھذہ الأصناف فبیعوا کیف شئتم إذا کان یدا بید‘‘.(کتاب البیوع، باب الربا: ٤/ ٤٥١، ٤٥٢:دار الکتب العلمیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/04