کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ دورانِ حج جنایات اور ان سے متعلقہ کفارات کے بارے میں بنیادی اصول کیا ہیں؟
واضح رہے کہ احناف کے ہاں محرم شخص کسی بھی جنایت (غلطی )کا ارتکاب کرلے ،تو اس پر بہر صورت جزا (دم ،صدقہ،قیمت یا روزہ) واجب ہوگی۔جزا کے واجب ہونے میں عمد وخطا(جان بوجھ کر یا بھول کر)،اکراہ ورضا(زبردستی یا رضامندی سے)،عادت واتفاق ،ہوش وحواس ،صحت ومرض اور تنگ دستی وغناء کسی بھی چیز کا اعتبار نہیں ہوگا،تاہم قصداً(غلطی سے)یا عمداً(جان بوجھ کر) غلطی کرنے سے گناہ بھی لازم ہوگاجو کہ دنیاوی جزا(بدلہ) کے علاوہ ہے۔
چنانچہ جزا کے اعتبار سے جنایات (غلطیاں)کی چار قسمیں ہیں:
تمام جنایات(غلطیوں) میں صرف دو جنایات ایسی ہیں، جن کے ارتکاب پر بدنہ(مکمل اونٹ یا مکمل گائے )واجب ہوگا۔
لما في التنویر مع الدر:
’’الجناية: هنا ما تكون حرمته بسبب الإحرام أو الحرم‘‘.
قال إبن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ:
’’(قوله:بسبب الإحرام أو الحرم) حاصل الأول سبعة نظمها الشيخ قطب الدين بقوله:
محـرم الإحرام يا من يدري إزالـة الشعر وقص الظفــر
واللبس والوطء مع الدواعي والطيب والدهن وصيد البر
زاد في البحر ثامنا: وهو ترك واجب من واجبات الحج ...... وحاصل الثاني التعرض لصيد الحرم وشجره‘‘.(کتاب الحج،باب الجنایات:۳/۶۵۰،رشیدیۃ).
لما في بدائع الصنائع:
’’ولایکون الحاج محصراً بعد ما وقف بعرفة ویبقی محرماً عن النساء إلی أن یطوف طواف الزیارة‘‘.(کتاب الحج،فصل وأما بیان حکم المحرم.....:۱۷۶/۲،دارالکتاب العربي).
وفي الھندیۃ:
’’ولو لم یطف أصلاً لم تحل له النساء وإن طال ومضت سنون، وهذا بإجماع، کذا في غایة السروجي شرح الهدایة‘‘.(کتاب الحج،۲۳۲/۱،دارالفکر بیروت).
في رد المحتار:
’’وفي شرح النقاية للقاري: ثم الكفارات كلها واجبة على التراخي، فيكون مؤديا في أي وقت، وإنما يتضيق عليه الوجوب في آخر عمره في وقت يغلب على ظنه أنه لو لم يؤده لفات، فإن لم يؤد فيه حتى مات أثم وعليه الوصية به، ولو لم يوص لم يجب على الورثة، ولو تبرعوا عنه جاز‘‘.(کتاب الحج، باب الجنایات:۶۵۰/۳،رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی