دودھ میں پانی ملا کر بیچنےکا حکم

دودھ میں پانی ملا کر بیچنےکا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ جیسا کہ عصرِ حاضر میں یہ بات معروف و مشہور ہے کہ ہر دودھ والا دودھ میں پانی ملاکر بیچتا ہے،کیا اس شخص کی کمائی حلال ہے یا حرام؟ اور اس شخص کے گھر کا کھانا ،پینا ،یا دعوت میں جانا جائز ہے،یا نہیں؟

جواب

دودھ میں پانی ملا کر بیچنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں دھوکا دہی ہے اور دھوکے سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔”من غشّنا فلیس منّا، والمکر والخداع في النار”۔ (فیض القدیر: ١١/٥٩٢٦)۔

اسی طرح حکومت کی جانب سے بھی اجازت نہیں ہے کہ دودھ میں پانی ملاکر بیچا جائے، لہٰذا اس میں پانی ملا کر بیچنا جائز نہیں ہے،البتہ اگر دودھ بیچنے والا دھوکا نہ دے بلکہ لوگوں کو بتادے کہ اس میں پانی ملا ہوا ہے اور قیمت یہ ہے(یعنی خالص دودھ کی قیمت سے کم ہے) تو بیچنے کی گنجائش ہے،اور پھر اس کی کمائی حلال ہے اور اس کے گھر کا کھانا، پینا اور دعوت میں جانا درست ہے، ورنہ نہیں۔

''عن أبي ھریرۃ، قال: نھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عن بیع الحصاۃ، وعن بیع الغرر''.( صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان الحصاۃ: ٢/٢، سعید)

''رجل أراد أن یبیع السلعۃ المعیبۃ وہو یعلم یجب أن یبینہا فلو لم یبین قال بعض مشایخنا یصیر فاسقا مردود الشہادۃ (الھندیۃ، کتاب البیوع، الباب العشرون في البیاعات المکروھۃ والارباح الفاسدۃ: ٣/٢١٠،رشیدیۃ)

''قال العبد الضعیف: وقال الموفق في ''المغنی'' من علم بسلعتہ عیباً لم یجز بیعھا حتی یبیّنہ للمشتری، فإن لم یبینہ فھو آثم عاص نص علیہ أحمد، لماروی حکیم بن حزام عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، أنہ قال: البیعان بالخیار مالم یتفرقا فإن صدقا وبینا بورک لھما، وإن کذبا وکتما محقت برکۃ بیعھما''. (إعلا السنن، کتاب البیوع، باب خیار العیب: ١٤،٥٤،إدارۃ القرآن، کراتشي).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی