درود لکھی، درودتاج اور دعائے گنج العرش پڑھنےکا حکم

درود لکھی، درودتاج اور دعائے گنج العرش پڑھنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے لوگ درود تاج ،درود لکھی، دعا گنج العرش اور دیگر اوراد  و ظائف بڑے شوق اور ثواب کی نیت سے پڑھتے ہیں ،کیا یہ واقعی کار ثواب ہے؟جب کہ ہم نے اپنے محلے کے امام صاحب سے سنا تھا کہ یہ شرک ہے اور اب یہی مسئلہ ایک مقامی اخبار میں لکھا ہے کہ درود تاج پڑھنا جائز اور کار ثواب ہے، آپ سے گزارش ہے کہ آپ مسئلہ کی وضاحت فرما کر دلیل سے روشنی ڈالیں۔

جواب

درو د تاج، درود لکھی، دعاء گنج العرش وغیرہ کے الفاظ قرآن پاک اور حدیث شریف کے نہیں ہیں اور نہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم تابعین اور سلف صالحین سے اس طرح درود پڑھنا ثابت ہے، بلکہ یہ سینکڑوں برس بعد کے ایجاد کردہ ہیں،حضرت آقائے دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعلیم دیے ہوئے الفاظ میں جو برکات ہیں وہ دیگر کلمات میں کہاں ہوسکتے ہیں؟صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر کس طرح درود بھیجیں؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:''قُولُوا: اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ، وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ، وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَآلِ إِبْرَاہِیمَ .''(بخاری ج ٢:ص٩٤٠)اسی طرح دوسری حدیث میں ہے:'' قال قُولُوا: اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ .''(بخاری ج ٢،ص ٩٤١:قدیمی کتب خانہ)

اورمسلم شریف میں: قُولُوا اللہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ، وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اللہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ.''(مسلم ج ١،ص١٧٥، قدیمی کتب خانہ)

دعا اور درود میں اصل تو یہ ہے کہ ان ہی الفاظ کے ساتھ درود شریف پڑھنے کا اہتمام کیاجائے جو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے مروی ہیں،حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو دعا سکھائی جس میں ''آمنت بکتابک الذی انزلت ونبیک الذی أرسلت'' کے الفاظ ہیں،لیکن صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ازروئے تعظیم نبی کے بجائے رسول کا لفظ کہا ''قال البراء فقلت: وبرسولک الذی أرسلت'' تو آپ نے فوراً ٹوکا اس کے سینے پر ہاتھ مار کرفرمایا کہ کہو: ''نبیک الذی أرسلت''(ترمذی ج:٢ص١٧٥فاروقیہ کتب خانہ)

یعنی حتی الامکان وہی درود پڑھا جائے جو حدیث شریف سے ثابت ہو اور جس درود کے الفاظ شرکیہ نہ ہوں تواس کا پڑھنا بھی جائز ہے لیکن اس کو مسنون نہ سمجھے۔ درود تاج وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے بشرطیکہ اس میں بعض الفاظ مثلاً :''دافع البلاء والوباء والقحط والمرض والالم.'' قسم کےالفاظ چھوڑدے اور دافع حقیقت میں خدا ہی کو مانے ،حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بلا ء،وبا ،قحط وغیرہ کا دور کرنے والا نہ سمجھے،مگر عوام جہلا ایسا فرق کہاں سمجھتے ہیں، ان کو اس طرح الفاظ پڑھنے کا حکم دینا شرک میں مبتلا کرنے کے برابر ہے، اسی وجہ سے ہمارے محققین علما ءکرام نے اس جیسے کلمات پڑھنے کی اجازت نہیں دی ہے،بلکہ مشکلات کا حل کرنے والا خدا ہی ہے ،مخلوق میں سے چاہے نبی ہو، ولی یا صحابی وغیرہ کسی کو بھی حقیقتاً دافع البلاء وغیرہ ماننا اہل سنت و الجماعت کے عقیدے کے خلاف ہے۔
حضرت اقدس پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ مخلوق کو خدا کے ساتھ شریک کرنا چھوڑ دے اور حق تعالیٰ عزوجل کو اکیلا سمجھ، وہی تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے، تمام چیزیں اسی کی قبضہ قدرت میں ہیں، اے غیراﷲسے چیزوں کے طلب کرنے والے تو بے وقوف ہے، کیا کوئی ایسی چیز بھی ہے جو اﷲ کے خزانے میں نہ ہو، اﷲ تو فرماتا ہے کہ کوئی چیز بھی نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ: ان درودوں کو پڑھا جائے جن کے الفاظ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہوں یہ زیادہ بابرکت اور موجب اجروثواب ہیں بنسبت ان الفاظ کے جو اپنی طرف سے ایجاد کیے ہوں۔

آخر میں حضرت مفتی محمود گنگوہیؒ کا فتوی نقل کیا جاتا ہے۔

”سوال:نورنامہ، عہد نامہ، دعاء گنج العرش، درود تاج، درود لکھی کی اصلیت کیا ہے ان کی تعریفات درست ہیں، یا مبالغہ ہے؟ دوسرے ان کا ثبوت رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہے،یا لوگوں نے خود تالیف کیا ہے، ان کے پڑھنے کے بارے میں کیا مسئلہ ہے؟

الجواب حامداً ومصلیاً:

ان کی کوئی سند صحیح ثابت نہیں، جو تعریفیں لکھی ہیں بے اصل ہیں بجائے ان کے قرآن کی تلاوت کی جائے کلمہ، درودشریف، استغفار پڑھا جائے۔(فتاوی محمودیہ٥/٣٤٧)

''قال العلامۃ الملاعلی القاري بعد بحث: فأرادو ا تعلیم الصلوٰۃ أیضاً علی لسانہ بأن ثواب الوارد أفضل وأکمل.'' (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلوٰۃ٣/٧٦، رشیدیہ)

قال العلامۃ السخاوی: استدل بتعلمہ صلی اﷲ علیہ وسلم لأصحابہ کیفیۃ الصلاۃ علیہ بعد سوألھم عنھا: أنھا أفضل الکیفیات فی الصلاۃ علیہ؛ لأنہ لایختار لنفسہ إلا الأشرف والأفضل.'' (القول البدیع/ البحرہ مطوّلا فی أفضل الکیفیات الصلاۃ علیہ صلی اﷲ علیہ وسلم ص:١٤١، مؤسسۃ الریان)

''عَنْ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ أَلَا أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ تَقُولُہَا إِذَا أَوَیْتَ إِلَی فِرَاشِکَ۔۔۔۔ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ قَالَ الْبَرَاء ُ فَقُلْتُ وَبِرَسُولِکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ قَالَ فَطَعَنَ بِیَدِہِ فِی صَدْرِی ثُمَّ قَالَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ.'' (ترمذی، ابواب الدعوات،١٧٦،١٧٧/٢، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی