پانی پر دم کرنا اور اس پانی کو کسی جگہ بہانے کا حکم

پانی پر دم کرنا اور اس پانی کو کسی جگہ بہانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پانی پر دم کرنا اس کی شرعا کیا حیثیت ہے اور اس پانی کو کسی جگہ پر بہا دینا کیسا ہے؟نیزاس پانی سے طہارت حاصل کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دم کرنا تین شرائط کے ساتھ جائز ہے:
(١) دم قرآن مجید، اللہ تعالی کے نام اور اس کی صفات کے ساتھ ہو۔
(٢) عربی زبان میں ہو یا ایسی زبان میں ہو، جس کا معنی او رمطلب سمجھ میں آئے۔
(٣) دم کو مؤثر بالذات نہ سمجھا جائے۔
لہذا ان شرائط کے ساتھ پانی پر دم کرنا جائز ہے اور مذکورہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
جہاں تک بات ہے دم کیے ہوئے پانی کو بہانے اور اس سے طہارت حاصل کرنے کی، تو اس پانی کو بہانا اور اس سے طہارت حاصل کرنا جائز ہے، البتہ مذکورہ پانی پر چوں کہ قرآن مجید یا اللہ تعالی کے نام اور اس کی صفات کے ذریعہ دم کیا گیا ہوتا ہے اور عرف میں مذکورہ پانی سے استنجاء وغیرہ کو بے ادبی سمجھا جاتا ہے، لہذا مذکورہ پانی سے استنجاء وغیرہ اس کے احترام اور عرف میں بے ادبی شمار ہونے کی وجہ سے نہ کی جائے۔
لما في فتح الباري:
’’وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثۃ شروط: أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ و صفاتہ، وباللسان العربي أو بما یعرف معناہ من غیرہ، وأن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالی‘‘.(کتاب الطب، باب الرقی بالقرآن والمعوذات، ١/ ٢٤٠:قدیمی کتب خانہ)
وفي کنز العمال:
’’عن علي قال: أردت أن أخطب إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابنتہ فقلت: ما لي من شيئ....... فدعا بإناء فیہ ماء فدعا فیہ ثم ریشہ علینا، فقلت: یا رسول اللہ، أھي أحب إلیک أم أنا؟ قال:ھي أحب إلي منک وأنت أعز إلي منھا‘‘.(کتاب الفضائل، فضائل علي، ٧/ ٥٢:دار الکتب العلمیۃ)
وفي مشکاۃ المصابیح:
’’وعن علي رضي اللہ عنہ قال: بینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات لیلۃ یصلي، فوضع یدہ علی الأرض، فلدغتہ عقرب، فناولھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنعلہ فقتلھا، فلما انصرف قال: لعن اللہ العقرب، ما تدع مصلیا ولا غیرہ، أو نبیا ولا غیرہ، ثم دعا بملح وماء، فجعلہ في إناء، ثم جعل یصب علی أصبعہ حیث لدغتہ ویمسحھا ویعوذھا بالمعوذتین‘‘.(کتاب الطب والرقی، رقم الحدیث: ٤٥٦٦، ٢/ ١٤٩:دار الکتب العلمیۃ).فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/02