دادا کا اپنے پوتے کے لیے اپنے مرحوم بیٹے کے حصے کی وصیت کرنا

دادا کا اپنے پوتے کے لیے اپنے مرحوم بیٹے کے حصے کی وصیت کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے (محمد انور بن محمد ہاشم) والد صاحب محمد ہاشم مرحوم، میرے دادا (نور محمد مرحوم) سے پہلے انتقال کرگئے، اور دادا (نور محمد مرحوم) کی ملکیت میں کچھ زمینیں تھیں، دادا (نور محمد مرحوم) نے کچھ زمینیں تقسیم کرکے مجھے (محمد انور بن محمد ہاشم مرحوم) بھی حصہ دیا ہے، اور بعض زمینیں تقسیم نہیں کیں، جو زمینیں تقسیم نہیں کی تھیں اس کے بارے میں دادا (نور محمد مرحوم) نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی کہ غیر تقسیم شدہ زمین میں بھی مرحوم محمد ہاشم کے بیٹے محمد انور کو حصہ دیا جائے۔
تو اب پوچھنا یہ ہے کہ غیر تقسیم شدہ زمین میں میرا (محمد انور) کا حصہ ہے یا نہیں؟ اگر ہے، تو کتنا ہے؟ اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔
وضاحت: نور محمد مرحوم کے انتقال کے وقت ان کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں، نیز وصیت میں یہ کہا تھا کہ میرے بیٹے محمد ہاشم مرحوم کا حصہ ان کے بیٹے محمد انور کو دیا جائے۔

جواب

صورت مسئولہ میں نور محمد مرحوم کا یہ کہنا کہ میرے مرحوم بیٹے محمد ہاشم کا حصہ ان کے بیٹےمحمد انور کو دیا جائے، شرعا وصیت ہے، اور شریعت میں مرحوم کے ترکہ کے ایک تہائی حصے تک وصیت نافذ کرنا ورثاء پر لازم ہے، البتہ اگر دیگر تمام ورثاء اجازت دیں، تو ایک تہائی سے زیادہ میں بھی نافذ ہوگی۔
اگر تقسیم شرعی کے مطابق محمد ہاشم مرحوم حیات ہوتے، تو ان کا حصہ ایک تہائی سے کم ہوتا، لہذا محمد ہاشم مرحوم کے حصے کے بقدر محمد انورکو ملے گا۔
لما في بدائع الصنائع:
’’ثم الشرط: أن لا یکون وارث الموصي وقت موت الموصي، لا وقت الوصیۃ حتی لو أوصی لأخیہ ولہ ابن وقت الوصیۃ، ثم مات قبل موت الموصي، ثم مات الموصي لم تصح الوصیۃ؛ لأن الموصی لہ وھو الأخ صار وارث الموصي عند موتہ، ولو أوصی لأخیہ ولا ابن لہ وقت الوصیۃ، ثم ولد لہ ابن، ثم مات الموصي صحت الوصیۃ؛ لأن الأخ لیس بوارثہ عند الموت لصیرورتہ محجوبا بالابن وإنما اعتبرت الوراثۃ وقت موت الموصي لا وقت وصیتہ؛ لأن الوصیۃ لیست بتملیک للحال لیعتبر کونہ وارثا وقت وجودھا بل ھي تملیک عند الموت، فیعتبر ذلک عند الموت‘‘.(کتاب الوصایا: ١٠/ ٣٥٨:رشیدیۃ)
وفي رد المحتار:
’’بیانہ إن شرط الإرث وجود الوارث عند موت المورث، وذلک منتف في جھالۃ تاریخ الموتی لعدم العلم بوجود الشرط ولا توارث مع الشک وکذا في جھالۃ الوارث؛ فإنھا کموتہ حکما کما في المفقود‘‘.(کتاب الفرائض:١٠/ ٥٤٣:رشیدیۃ)
وفي الھندیۃ:
’’ولا تجوز الوصیۃ للوارث عندنا، إلا أن یجیزھا الورثۃ، ولو أوصی لوارثہ ولأجنبي صح في حصۃ الأجنبي، ویتوقف في حصۃ الوارث علی إجازۃ الورثۃ إن أجازوا جاز وإن لم یجیزوا بطل، ولا تعتبر إجازتھم في حیاۃ الموصي حتی کان لھم الرجوع بعد ذلک کذا في فتاوی قاضي خان: ویعتبر کونہ وارثا، أو غیر وارث وقت الموت لا وقت الوصیۃ حتی لو أوصی لأخیہ وھو وارث، ثم ولد لہ ابن صحت الوصیۃ للأخ ولو أوصی لأخیہ ولہ ابن، ثم مات الابن قبل موت الموصي بطلت الوصیۃ للأخ کذا في التبیین‘‘.(کتاب الوصایا:٦/ ١٠٦، ١٠٧:دار الکتب العلمیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/328