حج کے دوران کوئی رکن رہ جائے تو کیا حکم ہے؟

حج کے دوران کوئی رکن رہ جائے تو کیا حکم ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کسی شخص سے حج کا کوئی رکن رہ جائے، تو ایسے شخص کے لیے کیا حکم ہے؟شریعت کی روشنی میں جواب دے کر رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ حج کے دو ارکان ہیں:
۱……وقوف عرفہ
۲……طواف زیارت
طواف زیارت کا وقت دس ذی الحجہ سے لے کر بارہ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے، اس سے زیادہ بغیر عذر کے مؤخر کرنا مکروہ تحریمی ہے جس کی وجہ سے دم لازم آئے گا،لیکن اگر کوئی طواف زیارت کر لے تو اس کا فرض ادا ہوجائے گا ۔
البتہ وقوف عرفہ کا حکم یہ ہے کہ اگر وقوف عرفہ اپنے وقت میں کسی سے رہ جائے، تو اس کا حج فاسد ہوجائے اور آئندہ اس کی قضاء لازم ہوگی۔

لما في بدائع الصنائع:

’’وأما ركن الحج  فشيئان أحدهما الوقوف بعرفة وهو الركن الأصلي للحج،والثاني طواف الزيارة.

 أما الوقوف بعرفة:فالكلام فيه يقع في مواضع:وفي بيان حكمه إذا فات عن وقته.

وأما بیان حکمہ إذا فات: فحکمہ أنہ یفوت الھج في تلک السنۃ، ولا یمکن استدارکہ فیھا؛ لأن رکن الشيء وبقاء الشيء مع فوات ذاتہ محال‘‘.(کتاب الحج ،فصل في رکن الحج:۶۶-۵۸/ ۳،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
فتویٰ نمبر:179/104

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی