حج پر جانے سے پہلے انتقال کرجائے تو اس رقم کا حکم

حج پر جانے سے پہلے انتقال کرجائے تو اس رقم کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی  بیوی کی طرف سے حج کے لیے بینک میں پیسے داخل کرائے ،لیکن وہ آدمی  حج سے قبل انتقال کر گیا تو جو پیسے اُس نے داخل کرائے تھے ان کو لے کر کیا کیا جائے، اس کی طرف سے حج بدل کیا جائے یا کہ وہ پیسے ورثہ کے ہوں گے؟

جواب

صورت مسؤلہ میں جب میاں بیوی دونوں کے حج کے لیے بینک میں پیسے داخل کرائے اور حج سے پہلے انتقال کرگیاتو وہ پیسےورثہ کے ہیں ، کیوں کہ بدون وصیت کے ورثاء کے ذمہ ضروری نہیں ہےکہ وہ متوفی کی طرف سے حج کرادیں، لیکن اگر جملہ ورثہ اس پر راضی اور وہ سب بالغ ہوں تو اگر وہ سب متوفی کی طرف سے حج کرادیں تو اچھا ہے، او رامید ہے کہ ان شا ء اﷲ میت کی طرف سے حج فرض ادا ہو جائے گا۔

تقبل النیابۃ عند العجز فقط۔۔۔۔ہذا أی اشتراط دوام العجز إلی الموت إذا کان العجز کالحبس و المرض یرجی زوالہ۔۔۔۔وبشرط الأمر بہ أی بالحج عنہ فلا یجوز حج الغیر بغیر إذنہ إلا إذا حج أو أحج الوارث عن مورثہ لوجود الأمر دلالۃ.
وفی الرد:قولہ کالحبس والمرض أشار إلی أنہ لا فرق بین کون العذر سماویا أو بصنع العباد۔۔۔۔ففی مناسک السروجی: لو مات رجل بعد وجوب الحج ولم یوص بہ فحج رجل عنہ أو حج عن أبیہ أو أمہ عن حجۃ الإسلام من غیر وصیۃ قال أبو حنیفۃ: یجزیہ إن شاء اللہ، وبعد الوصیۃ یجزیہ من غیر المشیئۃ.(رد المحتار: کتاب الحج،٢/٥٩٨۔٦٠٠،سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی