تصویر والے کپڑے بیچنے کا حکم

تصویر والے کپڑے بیچنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندہ لنڈے کا کاروبار کرتا ہے اور بنڈل خرید کر کھولتا ہے،تو اس بنڈل میں بسا اوقات کچھ ایسے کپڑے نکلتے ہیں جس پر تصویر بنی ہوتی ہے اور کبھی ایک بنڈل میں چار پانچ تصویر والے کپڑے نکلتے ہیں، تو دیگر مال کے ساتھ ان تصویر والے کپڑوں کو بیچنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو جواز کی کیا صورت ہے؟

جواب

جاندار کی تصویر کی حرمت احادیث صحیحہ، صریحہ سے ثابت ہے اور یہ حکم عام ہے، چاہے تصویر مجسمے کی صورت میں ہو، کاغذ ودیوار پر ہو، یا کپڑے پر ہو، بہرصورت ناجائز وحرام ہے، اسی طرح کسی کپڑے وغیرہ پر تصاویر بنی ہوئی ہوں، ان کی بیع وشراء کی جائے، تو چوں کہ کپڑے وغیرہ کی بیع وشراء میں کپڑے ہی مقصود ہوتے ہیں ، تصاویر مقصود نہیں ہوتیں، تو ان کی خرید وفروخت کی گنجائش ہے، البتہ استعمال کرنا درست نہیں۔
ہاں اگر وہ تصاویر اس قدر چھوٹی ہوں کہ اگر وہ زمین پر رکھی ہوئی ہوں اور کوئی متوسط بینائی والا آدمی کھڑا ہوکر دیکھے، تو تصویر کے اعضاء واضح دکھائی نہ دیں، تو ایسے کپڑے کو استعمال کرنا جائز ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ کپڑوں کی خرید وفروخت کی گنجائش ہے۔
لما في الصحیح للبخاري:
’’عن عائشۃ رضي اللہ عنھا، قالت: حشوت للنبي صلی اللہ علیہ وسلم وسادۃ فیھا تماثیل کأنھا نمرقۃ، فجاء فقام بین البابین وجعل یتغیر وجھہ فقلت: ما لنا یا رسول اللہ، قال: (ما بال ھذہ الوسادۃ) قالت: وسادۃ جعلتھا لک لتضطجع علیھا، قال: (أما علمت أن الملائکۃ لا تدخل بیتا فیہ صورۃ، وأن من صنع الصورۃ یعذب یوم القیامۃ یقول أحیوا ما خلقتم)‘‘.(کتاب بدء الخلق، رقم الحدیث: ٣٢٢٤، ص: ٥٣٨:دار السلام)
وفي رد المحتار:
وتکرہ التصاویر علی الثوب صلی فیہ أو لا، وھذہ الکراھۃ تحریمیۃ، وظاھر کلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان، وقال: وسواء صنعہ لما یمتھن أو لغیرہ، فصنعتہ حرام بکل حال، لأن فیہ مضاھاۃ لخلق اللہ تعالی، وسواء کان في ثوب، أو بساط، أو درھم، وإناء، أو حائط وغیرھا فینبغي أن یکون حراما لا مکروھا، إن ثبت الإجماع أو قطعیۃ الدلیل بتواترہ‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ، ٢/ ٥٠٢:رشیدیۃ).فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/171