بیوی،دو بیٹے اور تین بیٹیوں کے درمیان میراث کی تقسیم

 بیوی،دو بیٹے اور تین بیٹیوں کے درمیان میراث کی تقسیم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بیوہ ہے، اس کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے، ان کی ایک جائیداد منتقلی سے رہ گئی ہے، باقی تمام جائیداد رجسٹرڈ منتقل ہوچکی ہے، اب شوہر کی اس جائیداد کا بٹوارہ اسلامی طریقے سے بتائیں کہ کس کا کتنا حصہ ہوگا، اور وراثت میں شوہر کے بہن، بھائیوں کا حصہ ہوگا یا نہیں؟ کیوں کہ والدین تمام مرحوم ہیں، دیگر سب شادی شدہ ہیں اور خود مختار ہیں۔
وضاحت:ورثاء میں ایک بیوہ ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں سب سے پہلے مرحوم کے کفن ودفن کے درمیانی اخراجات ادا کئے جائیں (بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے تبرعا ادا نہ کیے ہوں) اس کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کوئی واجب الاداء قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں تو وہ ادا کردیے جائیں، پھر اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس کو نافذ کردیا جائے ، پھر بقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔
تقسیم میراث کا طریقہ کار یہ ہے کہ کل قابل تقسیم جائیداد کے آٹھ 8 حصے کردیے جائیں، جن میں سے بیوہ کو 1 حصہ، بیٹوں میں سے ہر ایک کو دو 2حصے، اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک ، ایک 1 حصہ دیا جائے گا۔
فیصدی اعتبار سے بیوہ کو %12.5 ، دو بیٹوں میں سے ہر ایک کو%25اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو%12.5حصہ دیا جائے۔

نمبر شمار ورثاء عددی حصہ فیصدی حصہ
1. بیوہ 1 12.5%
2. بیٹا 2 25%
3. بیٹا 2 25%
4. بیٹی 1 12.5%
5. بیٹی 1 12.5%
6. بیٹی 1 12.5%

لما في التنزیل:
«فَإِن کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُم مِّن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ بِھا أَوْ دَیْنٍ ».(سورۃ النساء: 12)
وفیہ أیضًا:
«لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ». (سورۃ النساء: 11).
وفي الفتاوی السراجیۃ:
’’قال رضي اللہ عنہ:أول ما یبدأ من ترکۃ المیت تجھیزہ وتکفینہ بما یحتاج إلیہ ودفنہ، ثم قضاء دیونہ الأولی فالأولی، ثم تنفیذ وصایاہ من ثلث ما بقي بعد الدین والکفن، ثم قسمۃ الباقي بین ورثتہ علی فرائض اللہ تعالی، ثم العصبات الأقرب فالأقرب‘‘.(کتاب الفرائض، باب فی استحقاق المیراث وعدمہ: 570، زمزم).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/31