بہو کو بطور مہر ملنے والی زمین کو سسر کی میراث کے طور پر تقسیم کرنے کا حکم

بہو کو بطور مہر ملنے والی زمین کو سسر کی میراث کے طور پر تقسیم کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  نذیر محمد ولد طاؤس خان کا نکاح (تعظیم بی بی) بنت محمد عمر سے 02/ اگست 2001 میں قرار پایا، جس میں تعظیم بنت محمد عمر کا حق مہر-/50000 روپے طے ہوا، نکاح کی ذمہ داری وشادی کے اخراجات طاؤس کے ذمہ تھے کہ وہ گھرانے کے سربراہ تھے، انہوں نے مہر کی رقم کے عوض علاقہ مسکونہ میں ذاتی ملکیت کی زمین کا ایک حصہ (جس کی مقدار پانچ مرلہ ہے) تعظیم بی بی کے نام کردیا، جس کی تفصیل نکاح نامہ میں درج ہے، اسی طرح انتقال زمین کی عدالتی رسید جوکہ کاروائی کے موقع ہی پر محکمہ کی جانب عطا کی گئی تھی، اس کی کاپی بھی نکاح نامہ کی کاپی کے ساتھ ہی ہے۔
(١) طاؤوس خان کے انتقال کے بعد ان کی (یعنی قبضہ میں موجود) اس ایک کنال زمین ،جس کا چوتھائی حصہ جوکہ پانچ مرلہ ہے، وہ تعظیم بی بی کے نام بعوض حق مہر لکھ چکے تھے، اسے میراث کے طور و رثاء میں تقسیم کرنا جائز ہے؟
(٢) نیز ورثاء میں تقسیم کا یہ طریقہ کار کہ اس کنال زمین کو (جس میں تعظیم بی بی کا عوض حق مہر بھی ہے) طاؤس خان کے ترکہ کے طور پر تقسیم کرنا، اور اس مکمل کنال کو نذیر محمد بن طاؤس خان (جوکہ تعظیم بی بی شوہر ہیں) کا حق میراث قرار دے کر حوالہ کرنا درست ہے یا نہیں؟
(٣) کیا تعظیم بی بی ابتدائی زمانہ نکاح کے بعد سے ایک عرصہ دراز طاؤس خان کی سرپرستی میں بہ حیثیت بہو رہنے کی وجہ سے اور مشترکہ فیملی میں ہونے کے سبب، اس زمین کی جداگانہ حق دار نہیں ہے؟
براہ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں قرآن وحدیث کی رو سے درج بالا مسئلے کا حل ارشاد فرمائیں۔ جزاکم اللہ تعالیٰ خیراً.

جواب

صورت مسئولہ میں ذکر کردہ صورت حال اگر حقیقت پر مبنی ہے، اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا ہے، تو جو پانچ مرلہ زمین تعظیم بی بی کے مہر کے عوض ان کے نام پر کر دی گئی تھی، وہ زمین تعظیم بی بی ہی کی ہے، اسے میراث کے طور پر مرحوم کے ورثاء میں تقسیم کرنا درست نہیں ہے۔
نیز تعظیم بی بی کا مشترکہ فیملی میں رہنے کی وجہ سے مسئلے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ یہ زمین تعظیم بی بی ہی کی ملکیت ہوگی۔
لما في الدر مع الرد:
’’ویجب (الأکثر منھا إن سمی) الأکثر ویتأکد (عند وطء أو خلوۃ صحت) من الزوج‘‘.
’’(قولہ: ویتأکد)....... وافاد أن المھر وجب بنفس العقد لکن مع احتمال سقوطہ بردتھا أو تقبیلھا ابنہ أو تنصفہ بطلاقھا قبل الدخول، وإنما یتأکد لزوم تمامہ بالوطء ونحوہ، ظہر أن ما في الدرر من أن قولہ: عند وطء متعلق بالوجوب غیر مسلم، کما افادہ في الشرنبلالیۃ‘‘.(کتاب النکاح، باب المھر، ٤/ ٢٢٣:رشیدیۃ)
وفي الہندیۃ:
والمھر یتأکد بأحد معان ثلاثۃ: الدخول والخلوۃ الصحیحۃ وموت أحد الزوجین، سواء کان مسمی أو مھر المثل، حتی لا یسقط منہ شيء بعد ذلک إلا بالإبراء من صاحب الحق‘‘.(کتاب النکاح، ١/ ٣٧٠:دار الفکر بیروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/304