ایزی بزنس لائف پاکستان(EBL) کمپنی کا شرعی حکم

ایزی بزنس لائف پاکستان(EBL) کمپنی کا شرعی حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک کمپنی ہے جس کا نام EBL-Pakistan (ایزی بزنس لائف پاکستان) ہے اور اس میں کام کرنے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ پہلے اسے جوائن کرنا ہوگا، جس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے 750 روپے جوائن فیس ادا کرنی ہوتی ہے اور وہی پوری زندگی کا سرمایہ بھی ہوتا ہے، اس کے بعد کمپنی میں اکاؤنٹ بن جاتا ہے اور پھر کرنا یہ ہوتا ہے کہ آگے اور ممبر بنانے پڑتے ہیں، دو ممبر بنانے پر روزانہ کمپنی کی طرف سے 300 روپے ملتے ہیں اور پھر وہ دو ممبر آگے اور دو دو ممبر بناتے ہیں پھر ان کو300،300 ملتے ہیں اور پہلے بندے کو 400 ملتے ہیں اور جیسے جیسے اور ممبر بناتے جائیں گے پہلے بندوں کو ابتداء میں300، پھر400، پھر 800، پھر1600 پھر3200، پھر آخر میں3600 تک روزانہ ملتے جائیں گے اور اسی طرح بغیر کام کیے روزانہ صبح9 بجے یہ رقم اکاؤنٹ میں پہنچ جائے گی۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ اس کمپنی کے کاروبار کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟اور کیا اس کو جوائن کرنا یا اس میں کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟
یاد رہے کہ تین ماہ تک صرف جوائننگ کا مرحلہ ہوتا ہے اس کے بعد پھر کمپنی والے آن لائن بزنس کرواتے ہیں ،اس کا نفع بھی الگ ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ شروع میں کیے جانے والے جوائننگ سسٹم کی رقم بھی ملتی رہتی ہے۔

جواب

سوال میں مذکورہ کمپنی ”EBL-Pakistan” ((ایزی بزنس لائف پاکستان) کے متعلق ذکر کردہ تفصیل کے مطابق چوں کہ اس کمپنی کا مقصد مستقل طور پر کاروبار کرنا نہیں، بلکہ لوگوں کو کمیشن کا لالچ دے کر کمپنی کی ممبر سازی کرنا ہوتی ہے، اور شریعت نے اپنے ہاتھ سے محنت کی کمائی کو بہترین کمائی قرار دیا ہے اور بغیر محنت کی کمائی کی حوصلہ شکنی فرمائی ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں بغیر کسی محنت ومشقت کے بالواسطہ بننے والے ممبروں اور ان کی خرید وفروخت کی وجہ سے ملنے والی اجرت لینا جائز نہیں اور ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام پر چلنے والی کمپنی کا ممبر بن کر ممبر سازی کرنا اور مختلف طور طریقہ سے مالی فوائد حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں، اس لیے مذکورہ کمپنی کا ممبر بننے اور اس کے ساتھ کاروبار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
لما في التنزیل:
«یا أیہا الذین آمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل إلا أن تکون تجارۃ عن تراض منکم ولا تقتلوا أنفسکم إن اللہ کان بکم رحیما».(سورۃ النساء، الآیۃ: ٢٩)
وفي روح المعاني:
«یا أیہا الذین آمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل».
’’قولہ: (بالباطل) والمراد بالباطل ما یخالف الشرع، کالربا عن والقمار والبخس والظلم، قالہ السیدي: وھو المروي عن الباقر رضي اللہ عنہ، وعن الحسن:ھو ما کان بغیر استحقاق من طریق الأعواض‘‘.(سورۃ النساء،[ الآیۃ: ٢٩]، ٥/ ٤٦٦:مؤسسۃ الرسالۃ)
وفي الرد:
’’تتمۃ:قال وفي التاتارخانیۃ: وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر کذا، فذاک حرام علیھم .وفي الحاوي سئل محمد بن مسلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، وإن کان في الأصل فاسدا لکثرۃ التعامل ،وکثیر من ھذا غیر جائز فجوزہ لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام‘‘.(کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجیر، مطلب في أجرۃ الدلال: ٩/ ١٠٧:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:176/205