ادھار سونا خریدنے کا حکم

ادھار سونا خریدنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارےمیں کہ ہمارے یہاں چمن بلوچستان میں سونے کا کاروبار کرنے والے دکان داروں سے لوگ شادی میں زیورات دینے کے لیے سونا خریدتے ہیں، مثلاً: ایک یا دو تولے سونا لے کر پیسے کچھ دن کے بعد دیتے ہیں، کیا شریعت کی رو سے یہ خرید وفروخت جائز ہے یا ناجائز ہے؟

جواب

یہ خرید وفروخت جائز ہے، بشرطیکہ ایک عوض پر مجلسِ عقد میں قبضہ ہوجائے اور ادائیگی کا وقت متعین ہو۔
لما فی الفتاوی العالمکیریۃ:
’’وإن اشتري خاتم فضۃ أو خاتم ذھب فیہ فص أو لیس فیہ فص بکذا فلسا ولیست الفلوس عندہ فھو جائز ،تقابضا قبل التفرق أو لم یتقابضا ؛لأن ھذا بیع ولیس بصرف کذا في المبسوط‘‘.(کتاب الصرف، الباب الثاني، الفصل الثالث في بیع الفلوس: ٣/ ٢٢٤، مکتبۃ ماجدیۃ)
وفي المبسوط للسرخسي:
’’(وإذا اشتری الرجل فلوسًا بدراھم، ونقد الثمن، ولم تکن الفلوس عند البائع فالبیع جائز) لأن الفلوس الرائجۃ ثمن کالنقود، وقد بینّا أن حکم العقد في الثمن وجوبھا، ووجودھا معا ً ولا یشترط قیامھا في ملک بائعھا بصحۃ العقد، کما لا یشترط ذلک في الدراھم والدنانیر، وإن استقرض الفلوس من رجل ودفع إلیہ قبل الافتراق أو بعدہ فھو جائز إذا کان قد قبض الدراھم في المجلس؛ لأنھما قد افترقا عن عین بدین، وذلک جائز في عین الصرف، وإنما یجب التقابض في الصرف بمقتضی اسم العقد، وبیع الفلوس بالدارھم لیس بصرف‘‘.(کتاب الصرف، باب البیع بالفلوس، ٧/ ٣٢، المکتبۃ الغفاریۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/171