کیا قربانی کا گوشت کسی غیر مسلم کو دے سکتے ہیں؟

کیا قربانی کا گوشت کسی غیر مسلم کو دے سکتے ہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا قربانی کا گوشت کسی غیر مسلم کو دینا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو جواز کی کیا وجہ ہے؟ کیوں کہ آپ مفتیان کرام کے فتاوی کے مطابق صدقات واجبہ کسی غیر مسلم کو نہیں دیے جاسکتے اور قربانی واجب عمل ہے۔

جواب

واضح رہے کہ قربانی میں واجب اراقہ دم(خون بہانا) ہے، جو قربانی کا جانور ذبح کرنے سے ادا ہوجا تا ہے، گوشت تقسیم کرنا واجب نہیں، بلکہ قربانی کرنے والا خود بھی استعمال کرسکتا ہے اور دوسرے کو بھی ہدیہ کرسکتا ہے، اور ہدیہ غیر مسلم کو بھی دیا جاسکتا ہے، جب کہ صدقات واجبہ کا مصرف مسلمان فقیر ہے، لہذا غیر مسلم کو نہیں دے سکتے، یہی وجہ ہے کہ قربانی کی نذر ماننے کی صورت میں قربانی کا گوشت واجب التصدق ہوجاتا ہے اور اسے امیر یا غیر مسلم کو نہیں دے سکتے۔

لما في التنوير مع الدر:
”(وركنها) ذبح (ما يجوز ذبحه) من النعم لا غير .... (فتجب) التضحية: أي إراقة الدم من النعم عملا لا اعتقادا“.(كتاب الأضحية: ۵۲۱/۹: دار المعرفة بيروت)
وفي رد المحتار:
”(قوله:أي إراقة الدم) قال في الجوهرة: والدليل على أنها الإراقة لو تصدق بين الحيوان لم يجز، والتصدق بلحمها بعد الذبح مستحب وليس بواجب.١ھ‘‘.(كتاب الأضحية: ٩/٥٢١: دار المعرفة بيروت)
وفيه أيضًا:
”(قوله: ويأكل من لحم الأضحية إلخ) هذا في الأضحيه الواجبة والسنة سواء إذا لم تكن واجبة بالنذر، وإن وجبت به فلا يأكل منها شيئا ولا يطعم غنيا سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق ذلك، ولو أكل فعليه قيمة ما أكل زيلعي.١ھ‘‘. (كتاب الأضحية: ٩/۵۴۱: دار المعرفة، بيروت لبنان)
وفي اعلاء السنن:
”وللمضحي أن يهب كل ذالك أو يتصدق أو يهدية لغني أو فقير أو كافر“. (كتاب الأضحية: باب بيع جلد الأضحية: ٧/٣٥٨: إدارة القرأن والعلوم الإسلامية كراتشي).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر: 57/ 169

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی