قربانی کے گوشت سے متعلق چند اہم مسائل

قربانی کے گوشت سے متعلق چند اہم مسائل

۱……قربانی کا گوشت خو دکھانا او ررشتہ داروں ، مال داروں اور فقیروں میں تقسیم کرنا جائز ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ ایک تہائی حصہ خیرات کرے، اگر ایک تہائی سے کم خیرات کیا تو بھی کوئی گناہ نہیں۔
۲……بڑے جانور میں اگر سات آدمی یا اس سے کم شریک ہوں تو گوشت تقسیم کرتے وقت اٹکل سے نہ بانٹیں ، بلکہ تو ل کر وزن کرنا ضروری ہے، کمی بیشی کی صورت میں سود کا گناہ ہو گا۔
۳……جب شرکاء آپس میں گوشت تقسیم کرنا چاہیں، تو وزن کرکے تقسیم کرنا ضروری ہے ، اگر سارا گوشت لوگوں میں تقسیم کرنا چاہیں ، یا پکا کرکھلائیں تو اس وقت تقسیم کرنا ضروری نہیں۔
۴……مستحب یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصہ کرکے ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لیے ، ایک حصہ رشتہ داروں میں او رایک حصہ فقراء اور محتاجوں میں تقسیم کریں۔ اگر کوئی شخص عیال دار ہونے کی وجہ سے یاویسے ہی تمام گوشت خود رکھنا چاہتا ہے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
۵……قربانی کا گوشت ، سری پائے او چربی کا بیچنا جائز نہیں ، بالفرض اگر کسی نے فروخت کر لیا تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے ، اپنے پاس رکھنا یا استعمال میں لانا جائز نہیں ۔
۶……قصائی کو بطور اجرت گوشت دینا جائز نہیں۔
۷……قربانی کا گوشت سکھا کر رکھنا درست ہے۔
لما في الدر مع الرد:
’’(ويقسم اللحم وزناً لا جزافاً إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفاً للجنس لخلاف جنسه‘‘.
’’(قوله: ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لاتشترط؛ لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت‘‘.(کتاب الأضحیۃ،317/6،دارالفکر).
وفي بدائع الصنائع:
’’قال ہشام : سألت أبا یوسف عن البقرۃ إذا ذبحہا سبعۃ فی الأضحیۃ أیقسمون لحمہا جزافاً أو وزناً؟ قال: بل وزناً ۔۔۔۔۔۔۔ أما عدم جواز القسمۃ مجازفۃ فلأن فیہا معنی التملیک، واللحم من الأموال الربویۃ، فلا یجوز تملیکہ مجازفۃ کسائر الأموال الربویۃ‘‘.(کتاب التضحیۃ،فصل وأما إقامۃ الواجب،70/5، دارالکتاب العربي).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی