۱……قربانی کرنے والا یا اس کے اہل وعیال کھا ل کو اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں ، مثلاً جائے نماز ، موزہ ، مشکیزہ اور دسترخواں بنا کر اپنے استعمال میں لانا جائز ہے ۔
۲……کھا ل کسی امیر شخص کو بھی دینا جائز ہے ،البتہ فروخت کرنے کے بعد قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے ، قیمت اپنے استعمال میں لانا یا کسی غنی اور امیر کو دینا جائز نہیں۔
۳……کھال یا اس کی قیمت کسی ملازم کو تنخواہ اور کام کے عوض میں دینا جائز نہیں ، جیسے امام، مؤذن اور قصائی کو بحق اجرت کھال دینا درست نہیں ، البتہ اگر یہ لوگ مستحق ہوں تو مستحق ہونے کی وجہ سے دینا درست ہے ۔
۴……قربانی کی کھال کسی ایسے ادارے یا انجمن یا کسی ایسے رفاہی ادارہ کو دینا جائز نہیں جو اس رقم کو مستحقین پر خرچ نہیں کرتی، بلکہ جماعت اور ادارہ کی دیگر ضروریات میں خرچ کرتی ہے ۔
۵……قربانی کے بعد جانو رکی رسی ، جھول اور ہار کا صدقہ کرنا بہتر ہے ،ان کا بیچنا یا حق الخدمت کے طور رپر دینا جائز نہیں ۔
۶……موجودہ زمانے میں دینی مدارس میں چرمہائے قربانی کا دینا سب سے افضل او ربہتر ہے ، اس لیے کہ غریب طلبہ کی امداد بھی ہے اور علم دین کی خدمت بھی۔
وفي الشامیۃ:
'' (ويتصدق بجلدها أو يعمل منه نحو غربال وجراب) وقربة وسفرة ودلو (أو يبدله بما ينتفع به باقياً) كما مر (لا بمستهلك كخل ولحم ونحوه) كدراهم، (فإن) (بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدراهم) (تصدق بثمنه)''. (کتاب الاضحیۃ،328/6:سعید)
وفي الفتاوی البزازیة علی هامش الهندية:
'' وله أن یبیعها بالدراهم لیتصدق بها، لا أن ینتفع بالدراهم أو ینفقها علی نفسه ، فإن باع لذالك تصدق بالثمن''. (کتاب الاضحیۃ،294/6: رشیدیہ)
وفیہ أیضاً:
''وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة، كما في القهستاني''.(باب المصرف،339/2 :سعید).
فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی