کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ایک مولوی کا بیان سنا ہے کہ ۲۷ رجب المرجب کو شب معراج کا واقعہ پیش نہیں آیا اور آج کل کہ بعض لوگ اس کو برکت والی رات سمجھ کر اس میں خصوصی عبادت کا اہتمام کرتے ہیں ، اس میں عبادت کرنے کوبخشش کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو شریعت اس معاملے میں کیا فرماتی ہے؟وضاحت فرمادیں۔شکریہ
واضح رہے کہ رجب کی ستائیسویں (۲۷)رات کے بارے میں اگرچہ یہ مشہور ہے کہ یہ شب معراج ہے،لیکن یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہےکہ یہ وہی رات ہے جس میں آپ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے،کیونکہ اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں،بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ معراج کا واقعہ ربیع الاول کے مہینے میں پیش آیا تھا،بعض روایتوں میں رجب ،بعض روایتوں میں ربیع الثانی ،بعض میں رمضان ،اور بعض میں شوال کا ذکر کیا گیا ہے،اس لیے شب معراج کی تاریخ قطعی طور پر محفوظ نہیں ہے،تو اب یقینی طور پر ستائیسویں رجب کو شب معراج قرار دینا درست نہیں ہے،اور شب معراج سمجھ کر اس میں خصوصی عبادات کا اہتمام کرنا کہیں ثابت نہیں ہے،اس لیے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔
لما في عمدة القاري:
"واختلف في وقت المعراج فقيل إنه كان قبل المبعث وهو شاذ إلا إذا حمل على أنه وقع في المنام فله وجه وقيل كان قبل الهجرة بسنة في ربيع الأول وهو قول الأكثرين حتى بالغ ابن حزم فنقل الإجماع على ذلك وقال السدي قبل الهجرة بسنة وخمسة أشهر وأخرجه من طريقه الطبري والبيهقي فعلى هذا كان في شوال وحكى ابن عبد البر أنه كان في رجب وجزم به النووي وقيل بثمانية عشر شهرا حكاه عبد البر أيضا وقيل كان قبل الهجرة بسنة وثلاثة أشهر فعلى هذا يكون في ذي الحجة وبه جزم ابن فارس".(كتاب مناقب الأنصار،باب المعراج،27/17،دارالكتب).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 167/292