حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق برے خیالات رکھنے والے کا حکم

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق برے خیالات رکھنے والے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص جو کہ سنی معاشرے سے تعلق رکھتا ہے خود کو سُنی کہلاتا ہے، اور سنی عقائد بھی رکھتا ہے مگر وہ بندہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ لفظ ’’حضرت‘‘ اور ’’رضی اللہ عنہ‘‘ بولنا جائز نہ سمجھے ،حتی کہ ان کی صحابیت کا انکار کرے،اور نعوذ باللہ ان کو منافق سمجھے تو اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے اوراس کی بیوی کیا اس عقیدے کے بعد اس کی منکوحہ رہے گی یا نہیں ؟ اور ایسے بندے کے ساتھ لین دین ،تعلقات رکھنا کیسا ہے؟
وضاحت:مذکورہ شخص یزید کی وجہ سے اور اس وجہ سے یہ بات کرتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعت کے وقت طے شدہ شرائط پر عمل نہیں کیا تھااور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ صفین لڑی تھی۔

جواب

واضح رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب واجب الاحترام ہیں، اگرچہ ان میں سے بعض افضل ہیں بعض سے، لیکن پھر بھی کسی کی شان میں گستاخی اور توہین جائز نہیں، ان کے مشاجرات میں زبان کو روکنے کا حکم ہے۔
جہاں تک بات ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی، تو وہ جلیل القدر صحابی، بلکہ صحابی ابن صحابی ہیں، صحیح مسلم میں روایت ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: مجھے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جاؤ میرے پاس حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر لاؤ، اسی طرح ترمذی شریف میں روایت ہے کہ : آپﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی۔ اس سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا صحابی ہونا، حضور اکرم ﷺ کا ان کے لیے دعا کرنا اور ان کا مرتبہ بھی ثابت ہوا،اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری روایات میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت مذکور ہے، لہٰذا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرنا انتہائی درجہ کی حماقت اور پرلے درجے کی گمراہی ہے، اس لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے احترام میں ان کے نام کے ساتھ ’’حضرت‘‘ اور ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کہنا چاہیے، جو شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو (چاہے وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہوں یا کوئی اور) بُرا کہتا ہے، وہ سخت وعید کا مستحق ہے۔
لہٰذا مذکورہ شخص کو حقائق سے آگاہ کیا جائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بُرا بھلا کہنے کے متعلق وعیدیں سنائی جائیں اور یہ بات بھی اس کے گوش گزار کرلی جائے کہ: حدیث میں آتا ہے ’’اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو کافر یا فاسق کہتا ہے اور وہ شخص کافر یا فاسق نہ ہو تو یہ کہنے والا خود کافر یا فاسق ہوجاتا ہے‘‘ امید ہے کہ آئندہ وہ شخص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بُرے خیالات ترک کردے گا، البتہ اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے، تو مذکورہ شخص سے معاملات اور لین دین ترک کردیا جائے۔
لما في مرقاۃ المفاتیح:
’’والصحابۃ کلھم عدول مطلقا لظواھر الکتاب والسنۃ وإجماع من یعتد بہ. في شرح السنۃ: قال أبو منصور البغدادي: أصحابنا مجمعون علی أن أفضلھم الخلفاء الأربعۃ علی الترتیب المذکور، ثم تمام العشرۃ، ثم أھل بدر، ثم أحد، ثم بیعۃ الرضوان......وأما معاویۃ فھو من العدول الفضلاء والصحابۃ الأخیار‘‘. (کتاب المناقب والفضائل: باب  مناقب الصحابۃ رضي اللہ عنہم: 355/10، رشیدیۃ)
وفي النبراس:
’’ونکف عن ذکر الصحابۃ إلا بخیر لما ورد من الأحادیث الصحیحۃ في مناقبھم، ووجوب الکف عن الطعن فیھم ،کقولہ علیہ السلام: ’’لاتسبوا أصحابي، فلو أن أحدکم إن أنفق مثل أحد ذھبا، ما بلغ مد أحدھم، ولا نصیفہ‘‘. (ص:525،526،البشریٰ).
وفي الترمذي:
أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال لمعاویۃ رضي اللہ عنہ: ’’اللہم اجعلہ ھادیا مھدیا واھد بہ‘‘. (أبواب المناقب، باب مناقب معاویۃ رضي اللہ عنہ:224/2، ایچ ایم سعید).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/265