شب برأت میں اور عید کے دن قبرستان جانا

شب برأت میں اور عید کےدن قبرستان جانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عید کے دن اور شب براءت میں قبرستان جانے کی شرعاً کیا حیثیت ہے؟ کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قبروں کی زیارت کرنا فی نفسہ مستحسن کام ہے، بشرطیکہ آدمی آخرت کی یاد ، ایصال ثواب،مرحومین کے لئے دعائے مغفرت اور حصول عبرت کے لئے قبرستان جائے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت بھی دی ہے اور خود بھی آپ قبروں کی زیارت کے لئے متعدد مرتبہ قبرستان تشریف لے گئے ہیں، مگر جو چیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجہ میں ثابت ہو، اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہئے،لہذا اس کے لئے خاص دن اور خاص موقع کی تعیین کرنا بدعت ہے۔
صورت مسئولہ میں عید کے دن اور شب براءت کو زیارت قبور ، ایصال ثواب اور مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کے واسطے کبھی کبھار انفرادی طور پر قبرستان جانا جائز ہے، مگر اس کام کو ضروری سمجھنا ، اجتماعی طور پر جانا ، اور نہ جانے والوں کو ملامت کرنا جائز نہیں ، اور اس زمانے میں چونکہ ان ایّام میں زیارت قبور کے نام پہ بہت سی خرافات جمع ہو گئی ہیں ، لہذا احتیاط لازم ہے ۔
نیز احادیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دفعہ شب براءت میں قبرستان جانا ثابت ہے، اور عید کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبرستان جانا، احادیث میں اس کی صراحت نہیں ملتی، لہذا ہرسال اس کا التزام یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں ،بلکہ بدعت ہے ،جس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔
لما في سنن ابن ماجه:
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: "زورو القبور، فإنها تذكركم الأٓخرة".(كتاب الجنائز ،باب ماجاء في زيارة القبور، ح:1569، ص:278 :دارالسلام)
و في مرقاة المفاتيح:
(و عن جابر رضي الله عنه قال: كان النبي صلي الله عليه وسلم إذا كان يوم عيد خالف الطريق.) أي رجع في غير طريق الخروج ، قيل: والسبب فيه وجوه، ... منها: أن يزور قبور أقاربه.(كتاب الصلاة، باب صلاة العيدين، الفصل الأول،ص:539/3:رشيدية)
و فيه أيضاً:
قال الطيبي:و فيه أن من أصر علي أمر مندوب و جعله عزماً و لم يعمل بالرخصة ، فقد صصاب منه الشيطان من الضلال فكيف من أصر علي بدعة أو منكر وجاء في حديث ابن مسعود:إن الله عز وجل يجب أن تؤتي رخصه كما تؤتي عزائمه.(كتاب الصلاة، باب الدعاء في الشهيد، الفصل الأول:31/3:رشيدية)
و في المدخل لابن الحاج:
وهذه الليلة فيها زيادة كثيرة علي غيرها؛... و يزعمن أنهن خرجن للعبادة؛ و هي زيارة قبور الأولياء والعلماء والصلحاء.و كذلك يفعل بعض من قل حياؤه من الشبان وا لرجال، ... فحصل من ذلك جملة من المفاسد: منها:اجتماعهم كما سبق، والثاني:انتهاك حرمة هذه الليلة العظيمة ... الثالث:أنهم أعظموا المعصية بفعلها علي القبور... الرابع: أذية الموتي من المسلمين، الخامس:قلة احترامهم ...السادس:أنهم اتصفوا بصفة النفاق؛ لأن النفاق صفة قصد المعصية و إظهارها في الصورة أنها طاعة. فيا للعجب! كيف يقدر المرء المسلم أن يسمع بهذه المناكر ولايتنعض لها ولا يتشوش منها!.(المواسم التي نسبوها إلي الشرع وليست منه، ليلة نصف شعبان، ص:256/1: المكتبة العصرية).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/154