کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوں؟ میں نے کہا نہیں۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو غیر مسلم کہنا کفر ہے۔ میں نے اللہ سے توبہ کی اور کلمہ پڑھا، لیکن میں نے سنا ہے کہ اگر کسی نے کھلا گناہ کیا ہو، تو کھلی توبہ کرے اور اگر چھپ کر کرے تو چپکے سے توبہ کرے۔ تو کیا مجھے اس شخص کے پاس جانا چاہیے، جس کے سامنے میں نے یہ کفر کیا ہے؟ کیا یہ لازم ہے؟ کیا اسے بتائے بغیر میری توبہ قبول نہیں ہوگی؟
انسان کے لیے اسلام سب سے بڑی دولت ہے، جس شخص کی موت اسلام کے بغیر آئی، وہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا ہوگا، اس لیے اس دولت کی قدر کرنا بہت ضروری ہے، اللہ تعالیٰ سے اس پر استقامت مانگیں۔
اگر آپ شادی شدہ ہیں ، تو احتیاطا تجدید نکاح بھی کرلیں، باقی توبہ کی قبولیت کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ جس کے سامنے گناہ کیا ہے اس کو بتا کر یا اس کے سامنے توبہ کی جائے، ہاں مسلمان کو بد گمانی سے بچانے کے لیے بتادیں، تو زیادہ بہتر ہے۔لما في الھندیۃ:
’’ومن أي بلفظۃ الکفر وھو لم یعلم أنھا کفر، إلا أنہ أتی عن اختیار یکفر عند عامۃ العلماء خلافًا للبعض، ولا یعذر بالجھل، کذا في الخلاصۃ‘‘.(کتاب السیر، أحکام المرتدین: 286/2، دار الفکر)
وفي الدر مع الرد:
’’(ما فیہ [في کونہ کفرا] خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ) أي: تجدید الإسلام (وتجدید النکاح) أي:احتیاطًا‘‘.(کتاب الجہاد، مطلب: جملۃ من لا یقتل إذا ارتد: 677/6، رشیدیۃ)
وفي المبسوط السرخسي:
’’ومن أقر بالکفر طائعًا بانت منہ امرأتہ في الحکم، وفیما بینہ وبین ربہ لا تبین منہ‘‘.(کتاب الإکراہ، باب ما یخطر علی بال المکرہ من غیرہ أکرہ علیہ: 290/2، بیت الأفکار).
فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/276