ٹیلی نار (Telenor)سم استعمال کرنے کا حکم

ٹیلی نار (Telenor)سم استعمال کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ناروے ملک کی مختلف چیزیں پاکستان میں استعمال کی جاتی ہیں اور اس میں سرفہرست ٹیلی نار کی سم ہے، جو ہر دوسرا پاکستانی استعمال کرتا ہے، چونکہ گزشتہ کئی مرتبہ اس ملک(ناروے) میں دین اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی جاتی رہی،اور اب پھر قرآن مجید کو سرعام جلانے کی مذموم حرکت کی گئی۔
اب میراسوال یہ ہے کہ :کیا اس ملک(ناروے) کی مصنوعات مسلمانوں کو استعمال کرنا جائز ہے؟خصوصاً ٹیلی نار سم کے بارے میں علمائے کرام کیا فرماتے ہیں کہ اس کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے؟یا اس کے استعمال کی گنجائش اب بھی باقی ہے؟
جن علاقوں میں ٹیلی نار کے علاوہ دوسرا نیٹ ورک کام نہیں کررہا ہو، وہاں کے بارے میں مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور قرآن کی عظمت وعقیدت کا اظہار ہر مسلمان پر لازم اور ضروری ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، قرآن کریم کی عظمت اور اسلامی غیرت کا تقاضا ہے کہ جو ملک،ادارہ یا کمپنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرے، یا قرآن پاک کی توہین کرے، یا گستاخی اور توہین کرنے والوں کا ساتھ دے،تو اس کی مصنوعات کو استعمال نہ کیا جائے۔
لہٰذااگر ٹیلی نار موبائل کمپنی کا گستاخی کے قبیح عمل میں شریک ہونا، یا اس سے راضی ہونا ثابت ہوجائے، تو اس کمپنی کی سم کا استعمال ترک کردیا جائے۔
البتہ جس علاقے میں ٹیلی نار کے علاوہ کوئی دوسرا نیٹ ورک دستیاب نہ ہو، تو اس سم کے استعمال کی گنجائش ہے، بہر حال استعمال نہ کرنا بہتر ہے۔
لما في التنزیل:
’’وقد نزل علیکم في الکتاب أن إذا سمعتم اٰیٰت اللہ یکفر بھا ویستھزأ بھا فلا تقعدوا معھم..‘‘.(سورۃ النساء:140).
وفیہ أیضاً:
’’لایتخذ المؤمنون الکافرین أولیآء من دون المؤمنین‘‘.(سورۃ آل عمران:28).
وفي صحیح البخاري:
’’عن أبي ھریرۃ رضي اللہ تعالیٰ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:فوالذي نفسي بیدہ لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ‘‘.(کتاب الإیمان،باب حب الرسول من الإیمان:7/1،قدیمي).
وفي الجامع الترمذي:
’’عن أبي سعید قال،قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الرب عزوجل:من شغلہ القرآن وذکري عن مسألتي أعطیتہ أفضل ما أعطي السائلین وفضل کلام اللہ علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ‘‘.(کتاب فضائل القرآن،باب25،رقم الحدیث:2926ص:657،دارالسلام).
وفي الھندیۃ:
’’لابأس بأن یکون بین المسلم والذمي معاملۃ إذا کان مما لابد منہ کذا في السراجیۃ‘‘.(کتاب الکراھیۃ،الباب الرابع عشر:348/5،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 160/201