کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم آٹھ بھائی ہیں، والد محترم فوت ہوچکے ہیں، اب ہمیں قربانی کا مسئلہ در پیش ہے، دو دکانیں ہم آٹھ بھائیوں کی ملکیت ہیں، جو فی الحال (30000) تیس ہزار روپیہ کرایہ پر دی ہوئیں ہیں، جس پر گھر کا گزارا چل رہا ہے، گھر کا ماہانہ خرچ 60000 ہزار روپے ہیں، صاحب اختیار صرف بڑا بھائی ہے اور شادی شدہ ہے اور چار بھائی غیر شادی شدہ ہیں، تمام بھائی مزدور کے طور پر کسی کے ساتھ باغ میں شریک ہوجاتے ہیں، جس سے اب تک کوئی منافع بخش فائدہ نہیں ہوا، اب کیا صرف ملکیت پر قربانی واجب ہے یا صاحب اختیار ہونے پر سب بھائیوں پر قربانی واجب ہوگی؟
صورت مسئولہ میں اگر آپ کے گھر کا گزر بسر انہی دوکانوں کے کرائے سے چل رہا ہے، اور اس کے علاوہ مستقل کوئی آمدنی نہیں ہے، جس سے گھر کا گزارہ چل سکے، تو آپ لوگوں میں سے کسی پر بھی قربانی واجب نہیں ہوگی، البتہ اگر دوکانوں کے علاوہ کوئی اور مالیت مثلاً:سونا، چاندی یا ضرورت سے زائد سامان جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا اس سے زائد ہو، تو اس صورت میں قربانی واجب ہوگی۔
لما في الشامية:
”وذكر في الفتاوي فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لا تكفيه وعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة“..... وفيها سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى“. (كتاب الزكاة، باب المصرف،346/3:رشيدية).
وفي الفتاوى الهندية:
”وكذا لو كان حوانيت أو دار غلة تساوي ثلاثة آلاف درهم وغلتها لا تكفي لقوته وقوت عياله يجوز صرف الزكاة إليه في قول محمد رحمه الله تعالى“.(كتاب الزكاة، الفصل السابع المصارف، 251/1:دار الفكر).
وفي الشامية:
”قوله:(واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية“. (كتاب الأضحية، 520/9:رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
فتویٰ نمبر:251/ 173
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی