منتظم کا مدرسہ کی اشیاء(گاڑی،اے سی،بجلی،گیس وغیرہ)استعمال کرنے حکم

منتظم کا مدرسہ کی اشیاء(گاڑی،اے سی،بجلی،گیس وغیرہ)استعمال کرنے حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مدرسے کا منتظم:
۱.مدرسہ کے آڈٹ کرنے والے سے ذاتی معاملات کا آڈٹ کرواسکتا ہے؟
۲.مدرسہ کی سواری (کار، موٹر سائیکل)اپنا پٹرول ڈلوا کر استعمال کرسکتا ہے؟
۳. مدرسہ کی فریج میں اپنے لیے یا مہمانوں کے لیے پانی، بوتل وغیرہ رکھ سکتے ہیں؟
۴. مدرسہ کی طرف سے ملے کمرے میں گرمیوں کے ایام  میں اے سی یا کولر پنکھا لائٹ وغیرہ چلا کرسو سکتاہے؟
۵. مدرسہ کے چولہے پر اپنا دودھ، پتی چینی دے کر چائے بنواسکتے ہے؟ خود یا مہمان کو روٹی کھلا سکتاہے؟
۶.ذاتی مطالعہ اور کام کے لیے مدرسہ کے کمرے میں بیٹھ سکتا ہے، بجلی ،پانی، گیس ،کاغذ، قلم، کرسی ،میز وغیرہ کا استعمال کرسکتا ہے؟

جواب

۱. مدرسہ کے حساب کا آڈٹ کرنے والا چوں کہ مدرسہ کا ملازم ہے، لہذا اس ملازم سے مدرسہ کے اوقات میں ذاتی معاملات کا آڈٹ کرانا جائز نہیں اور مدرسہ کے اوقات کے علاوہ اگر اس سے ذاتی معاملات کے بارے میں کام لیا جائے تو اس آڈٹ کرنے والے کے ساتھ اپنے ذاتی کام کرنے کے لیے مستقل طور پر اجرت کا معاملہ کیا جائے، مدرسہ کے دباؤ کی وجہ سے مجبور کرکے اس سے کام لینا جائز نہیں۔
۲. مدرسہ کی سواری میں اپنا پیٹرول ڈال کر استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔
۳،۴. مدرسہ کے فریج اور دیگر سامان مثلا: اے سی، کولر وغیرہ کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ استعمال کرنا معروف اورمحتاط طریقہ کے ساتھ ہو۔
۵. مدرسہ کی انتظامیہ کی اجازت سے منتظم کا مدرسہ کے چولہے پر کھانا پکانے کی گنجائش ہے اور مہمانوں کے کھانے کے لیے الگ فنڈ کا انتظام کیا جائے جو عطیات سے ہو، مدرسہ کے عمومی چندہ سے اکرام نہ کیا جائے۔
۶.مدرسہ کا استاذ یامدیر/منتظم وغیرہ اگر مدرسہ میں بیٹھ کر اپنا کوئی ذاتی کام کرنا چاہے جس میں مدرسہ کی بجلی، گیس، پانی، کرسی اور میز کا استعمال ہوتا ہو تو معمول اور عرف کے مطابق استعمال کرنے کی گنجائش ہے جس کی وجہ سے مدرسہ پر اضافی اخراجات کا بوجھ نہ پڑے، البتہ قلم، کاغذ جیسی چیزیں جن کا آدمی خود آسانی کے ساتھ انتظام کرسکتا ہے، تو اگر ان اشیاء کے ذاتی استعمال کرنے میں واقف کی طرف سے دلالۃ یا صراحۃ اجازت پائی جائے تو ان اشیاء کو ذاتی کام میں استعمال کرنا درست ہوگا ورنہ درست نہیں ہوگا۔
وفي الرد:
’’الوکیل إنما یستفید التصرف من الموکل، وقد أمرہ بالدفع إلي فلان، فلا یملک الدفع إلی غیرہ، کما لو أوصی لزید بکذا لیس للوصي الدفع إلی غیرہ‘‘.(کتاب الزکاۃ، ٣/ ٢٢٤: رشیدیۃ)
وفي المبسوط:
ولیس للموع حق التصرف.(کتاب الودیعۃ، ١١/ ١٣١، ط: رشیدیۃ)
وفي الرد:
’’علی أنہم صرحوا بأن مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ، وصرح الأصولیون بأن العرف یصلح مخصصا‘‘.(کتاب الوقف، مطلب في المصادقۃ علی النظر، ٦/ ٦٣: رشیدیۃ)
وفيہ ایضاً:
’’وفي شرح البیري عن المبسوط أن الثابت بالعرف کالثابت بالنص‘‘.(کتاب الوقف، مطلب في وقف المشاع المقضي بہ، ٦/ ٥٥٩: رشیدیۃ)
وفي شرح المجلۃ:
’’الوکیل أمین فیما  فی یدہ کالمودع ،فیمن بما یضمن به المودع‘‘.(شرح المجلة،الكتاب الحادي عشر في الوكالة،الباب الاول،ج:4،ص:404 بیروت).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:175/157