کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مدرسے کے اوقات یا اس کے بعد عموما محلے دار یا جن لوگوں کا کوئی کام ہو یا کوئی کام نہ بھی ہو،ویسے مستقل کچھ دیر کے لیے مدرسے کے دفتر میں صبح یا شام کو یا کوئی اوقات مقرر کرلیں، اس میں مدرسے میں آکر بیٹھتے ہیں، پنکھا اور لائٹ بھی جلتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
اسی طرح مدرسہ چوں کہ گاؤں میں ہے تو گاؤں کے معاملات لوگ منتظم مدرسہ سے مدرسے میں آکر گفتگو کرتے ہیں،اس دوران بھی مدرسہ کا کمرہ، لائٹ،پنکھا وغیرہ استعمال ہوتا ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
اگر محلے کے لوگ کسی شرعی حاجت مثلا: کسی مسئلہ یا فیصلہ کے لیے مدرسہ میں تشریف لائیں، یا مدرسہ ہی کے متعلق کوئی مشورہ ہو، تو وہاں بیٹھنے اور مدرسے کے سامان بجلی، پنکھے وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت ہے، البتہ اپنے دنیاوی کاموں یا فضول بیٹھک کے طور پرآکر بیٹھتے ہیں، تو ان لوگوں کو مدرسہ کی اشیاء استعمال نہیں کرنا چاہیے۔وفي الشامیۃ:
’’شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به‘‘.
(کتاب الوقف،مطلب في وقف المنقول قصدا،۳۶۶/۴: سعید)
وفیہ ایضا:
’’أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة ‘‘.
(کتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر،۴۴۵/۴: سعید)
وفي الأشباہ:
لا یجوز التصرف في مال غیرہ بغیر إذنہ ولا ولایۃ.(کتاب الغصب،الفن الثاني:الفوائد،٢/ ٢٧٩:إدارۃ القرآن)
.
فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:175/158