کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کو ایک شخص قربانی کے لیے رقم دیتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے قربانی کرنے،اب زید نہ خود جانور ذبح کرسکتا ہے اور نہ اس جانور کا چمڑا نکال سکتا ہے، تو قصائی کی جو مزدوری ہے ذبح کرنےاور چمڑا نکالنے کی، یہ زید پر ہے یا اس شخص پر جس نے زید کو قربانی کے لیے رقم دی ہے؟ اگر زید نے رقم دیدی تو اس شخص کی قربانی پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا ،جس نے قربانی کے لیے زید کو رقم دی تھی۔ تحقیقی جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں چوں کہ قربانی مذکورہ شخص کی طرف سے زید کر رہا ہے، تو قصائی کی مزدوری اور چمڑا نکالنے کے اخراجات مذکورہ شخص پر لازم ہیں، البتہ اگر زید اپنی طرف سے بطور تبرع اور احسان کے قصائی کی مزدوری وغیرہ اخراجات ادا کردے، تو بھی قربانی درست ہوگی۔
لمافي بدائع الصنائع:
”وأما الوكيل بالشراء: فتوكيل بالشراء لا يخلوا إما إن كان مطلقا أو مقيدًا: فإن كان مقيدا يراعي فيه القيد إجماعًا لما ذكرنا، سواء كان القيد راجعًا إلى المشترى، أو إلى الثمن، حتى إنه اذا خالف يلزم الشراء، إلا اذا كان خلافا إلى خير فيلزم الموكل“. (كتاب الوكالة: فصل في حكم التوكيل: 444/7:بيروت)
وفي البحر الرائق:
”(فلو اشتراه بغير النفوذ أو بخلاف ما سمى له من وقع للوكيل) لأنه خالف امره، فنفذ عليه.... وظاهر ما في الكافي للحاكم أنه يكون مخالفًا فيما اذا زاد لا فيما اذا انقص فإنه قال: وإن قال اشترلي ثوبا هروبًا ولم يسم الثمن فهو جائز على الآمر، وإن سمى ثمنا فزاد عليه شيأ لم يلزم الآمر، وكذلك إن نقص من ذلك الثمن، الا ان وصفه له بصفة وسمى له ثمنا فاشترى بتلك الصفه بأقل من ذلك الثمن، فيجوز على الآمر.١ھ“. (كتاب الوكالة: باب الوكالة بالبيع والشراء:269/7:رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
فتویٰ نمبر:325/ 170
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی