کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر چند لوگوں نے کسی جگہ کو آباد کیا اور وہاں مسجد بھی تعمیر کی، پھر اسی جگہ کو چھوڑ گئے اور سامان کو بھی چھوڑ دیا، تو کیا اس مسجد کے سامان کو لوگ اٹھا کر اپنے محلے کی مسجد میں استعمال کرسکتے ہیں؟
مسجد کو آباد کرنا ضروری ہے اس کو ویران چھوڑنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے، لہذا سب سے پہلے تو اس مسجد کو آباد کرنے کی کوشش کریں، اگر اس مسجد کا آباد کرنا ممکن نہ ہو اور اس مسجد کے سامان کے ضائع ہونے یا چوری ہونے کا اندیشہ ہو، تو اس صورت میں اس مسجد کے سامان کو دوسری مسجد میں استعمال کے لیے منتقل کرنا جائز ہے، البتہ اس مسجد کی زمین تاقیامت مسجد کے حکم میں رہے گی۔وفي التنویر مع الدر:
’’(اتحد الواقف والجھۃ وقل مرسوم بعض الموقوف علیہ) بسبب خراب وقف أحدھما (جاز للحاکم أن یصرف من فاضل الوقف الآخر علیہ) لأنھما حینئذ کشيء واحد‘‘.(کتاب الوقف، مطلب في نقل أنقاض المسجد ونحوہ: ٦/ ٥٥٣:رشیدیۃ)
وفیہ أیضا:
’’قولہ:(ولو خرب ما حولہ) أي ولو مع بقائہ عامرا وکذا لو خرب ولیس لہ ما یعمر بہ وقد استغنی الناس عنہ لبناء مسجد آخر‘‘.
’’قولہ: (عند الإمام والثاني) فلا یعود میراثا ولا یجوز نقلہ ونقل مالہ إلی مسجد آخر سواء کانوا یصلون فیہ أو لا وھو الفتوی‘‘.(کتاب الوقف، مطلب فیما لو خرب المسجد أو غیرہ: ٦/ ٥٥٠:رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/291