کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسجد میں ایک امام عرصہ چالیس سال سے امامت کررہا ہے، امام مسجد وقت کا پابند، متقی انسان ہے کچھ عرصہ سے چند لوگ بغیر کسی عذر شرعی کے امام مسجد سے اختلاف کررہے ہیں اور امام کو نکالنے کے درپے ہیں، جب کہ اکثر محلہ کے لوگ امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور امام سے مطمئن ہیں، امام سے اختلاف کرنے والے لوگ تین سال سے مسجد کو نماز کے لیے نہیں آئے ،ان کا مطالبہ ہے کہ امام صاحب امامت سے ہٹ جائیں تب ہم مسجد آئیں گے ،امام سے اختلاف کی وجہ کوئی شرعی قباحت نہیں بلکہ ان چند لوگوں کی محض ضد، اَنا اور ذاتیات ہے۔
چند دن پہلے ان لوگوں نے مسجد میں دوسری جماعت شروع کردی، جس پر پولیس نے ایکشن لیا کہ مسجد میں دو جماعتیں نہیں ہوں گی بلکہ ایک ہی جماعت ہوگی اور پولیس کی موجودگی میں فریقین میں ایک معاہدہ طے پایا کہ علاقہ کے جید علماء کرام ومفتیان کرام کو بلایا جائے اور ان کے سامنے فریقین کا موقف رکھا جائے، فریقین کا موقف سننے کے بعد علماء کرام جو فیصلہ کریں اس کی پاسداری کریں ،خیر دوسرے دن علاقہ کے جید علماء کرام تشریف لائے انہوں نے فریقین کا موقف الگ الگ کافی تفصیل سے سنا اس کے بعد علماء کرام نے آپس میں مشاورت کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ امام صاحب کے اندر کوئی شرعی قباحت نہیں ہے ،لہذا امام صاحب ہی امامت کرائیں گے۔
اس فیصلے کو امام صاحب کے مخالفین نے رد کردیا اور وہ اب امام صاحب کے پیچھے جماعت سے نماز پڑھنے کے بجائے مسجد میں جس وقت جماعت کھڑی ہوتی ہے عین اسی وقت اپنی اپنی نماز بغیر جماعت کے پڑھتے ہیں ان لوگوں نے علماء کرام کا دین وشریعت کی روشنی میں کیا گیا فیصلہ نہیں مانا، ان لوگوں کا یہی مطالبہ ہے کہ امام صاحب کو معزول کیا جائے ہم اس امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، جب کہ محلہ کے اکثر لوگ امام صاحب کی امامت پر متفق ہیں اور وہ امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ،اس صورت حال میں امام صاحب کے لیے کیا حکم ہے اور امام صاحب کی مخالفت کرنے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ اگر مبنی برحقیقت ہے اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا ہے، یعنی واقعتا مذکورہ امام صاحب متقی، وقت کا پابند شخص ہے اور ان میں کوئی شرعی قباحت بھی نہیں، اس کے ساتھ ساتھ علاقے کے علماء نے بھی مذکورہ امام صاحب پر اعتماد کیا ہے، تو ایسے امام صاحب کو محض اپنی ذاتی عناد وغیرہ کی بناء پر امامت سے معزول کرنے کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔
امام صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنی امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہیں، نیز مخالفین کا مسجد میں انفرادی طور پر نماز پڑھنا درست نہیں، بلکہ ان لوگوں کو چاہیے کہ فضول کا جھگڑا وفساد چھوڑ کر آپس میں محبت والفت کے ساتھ رہیں اور مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں، بغیر کسی عذر شرعی کے مسجد کی جماعت کو چھوڑنا بڑی محرومی ہے۔لما في التنزیل:
˒˒وإذا قیل لھم لا تفسدوا في الأرض قالوا إنما نحن مصلحون ألا إنھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون˓˓.(سورۃ البقرۃ: ١١، ١٢)
وفي رد المحتار:
’’(والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاھرۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ: ٢/ ٣٥٠: رشیدیۃ)
وفي مختصر القدوري:
’’والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ، وأولی الناس بالإمامۃ أعلمھم بالسنۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ: ٧٨، ط: معھد عثمان بن عفان).
فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/343