کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں بعض علمائے کرام تبلیغی جماعت کو پسند کرتے ہیں، اور بعض حضرات اس فرقے کو ضال ،مضل کہتے ہیں، اور اس جماعت پر کچھ اعتراضات کرتے ہیں، کہ ان رائیونڈ والوں کے عقیدے صحیح نہیں ہیں اور یہ لوگ جو کلمہ طیبہ کا معنی (اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کے کوئی لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں) اور پھر اس کا یہ مقصد بیان کرتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر نہ ہونے کا یقین اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے میں دونوں جہانوں کی کامیابی کا یقین اور غیروں کے طریقے میں نا کامی کا یقین ہمارے دلوں میں اتر جائے، جب کہ ہمارے بعض علماء مندرجہ بالا معنی ومقصد پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مندرجہ بالا مقصد میں صرف توحید ربوبیت ہے اور توحید الوہیت اس سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔ آپ حضرات علمائے دیوبند کی عقیدہ کے مطابق فتوی دیں کہ کیا یہ تبلیغی جماعت واقعی ضال ومضل ہے یا صراط مستقیم پر ہے اور یہ جو کلمہ کا مقصد بیان کرتے ہیں، شریعت محمدی کے مطابق ان کا اس طرح بیان کرنا صحیح ہے یا غلط ہے۔ یا اعتراض کرنے والے علماء کا اعتراض صحیح ہے، یا غلط ہے، کتابوں کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں، تا کہ ہمارے عوام کے شکوک شبہات کا ازالہ ہوجائے۔
رائیونڈ والے حضرات کے وہ کون سے عقائد ہیں، جو اہل السنة والجماعة کے خلاف ہیں؟ اس کی وضاحت کی جائے، تو جواب دیا جائے گا، کلمہ ”لا إلٰہ إلا اللّٰہ“ در حقیقت عنوان ہے، تمام اسلامی احکام وعقائد کو ماننے کا، اور اسلام کے مقاصد میں توحید ربوبیت بھی داخل ہے اور توحید الوہیت اور دیگر عقائد بھی، تبلیغی حضرات عوام کی سمجھ کے مطابق کلمہ کا ایک بنیادی مقصد اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین بیان کرتے ہیں، تو اس سے دیگر مقاصد کی نفی نہیں کرتے، بلکہ جب توحید ربوبیت کا ذکر ہوگیا تو اس سے توحید الوہیت خود بخود ثابت ہوجاتی ہے، قرآن کریم میں جا بجا توحید الوہیت کو ثابت کرنے کے لیے بطور دلیل توحید ربوبیت کا ذکر کیا گیا ہے، لہٰذا ان حضرات پر اس وجہ سے اعتراض کرنا بے جا ہے۔
لمافي التنزيل: ﴿وَلۡتَكُن مِّنكُمۡ أُمَّةٞ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡرِ وَيَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِۚ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ 104﴾. (آل عمران: 104)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 172/148،155